
English translation of the story here.
ایف آئی اے دیگر ممالک کے ڈریکونین قوانین کے حوالے نہ دے ، رائے کی آزادی اور حق تقریر کا تحفظ لازمی ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ
انسداد الیکٹرانک کرائم ایکٹ (پیکا) اور بالخصوص سیکشن 26 کے تحت ایف آئی اے کب اپنا اختیار استعمال کرے گی ، اس معاملے پر اہم پیشرفت سامنے آئی ہے ۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایف آئی اے کو نئے تیار کئے جا رہے ایس اوپیز پر پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیکر 2نومبر تک ایس او پیز کو حتمی شکل دینے کی مہلت دے دی ہے ۔ عدالت نے ساتھ یہ بھی واضح کر دیا کہ سوشل میڈیا اب صرف صحافیوں تک ہی محدود نہیں، اسٹیک ہولڈرز میں رائے عامہ ہموار کرنےوالے دیگر افراد بھی ہیں جن میں سے کئی ایسے طبقات کی نمائندگی کرتے ہیں جن کی پہلے کوئی آواز نہیں تھی ۔
پیر کے روز اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سابق چئیرمین پیمرا ابصار عالم اور صحافی بلال غوری کو ایف آئی اے کی جانب سے جاری نوٹسز کیخلاف درخواستوں پر سماعت کی ۔ حکومت اور ایف آئی اے کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم ودودعدالت میں پیش ہوئے ۔ عدالت نے استفسار کیاکہ بتائیں ایف آئی اے کے بنائے گئے ایس او پیز پر کیوں عمل نہیں ہو رہا؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ مختلف ممالک میں سخت قوانین موجود ہیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جہاں پر ڈریکونین لاز ہیں وہاں ایسے قوانین استعمال ہوتے ہیں جو آپ ہمیں بتا رہے ہیں، قانون کی یہ شقیں جنہوں نے بنائی تھیں انہوں نے تو خود انہیں استعمال کرنا چھوڑ دیا،شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ عدالت کی ذمہ داری ہے۔ ایف آئی اے پیکا ایکٹ کو چھوڑ کر کبھی پاکستان پینل کوڈ پر چلی جاتی ہے ۔ نفرت انگیز تقاریر روزانہ سوشل میڈیا پر چل رہی ہوتی ہیں لیکن ایک آدمی بھی اس پر نہیں پکڑا گیا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ نفرت انگیز تقریر ہوتی کیا ہے اس کی تعریف کرنا بہت مشکل ہے اس پر عدالت نے قراردیا کہ نفرت انگیز تقریر کی ایک یونیورسل تعریف موجود ہے ۔ کسی کو مشتعل کر کے مذہبی جذبات کو ابھارنا دنیا بھر میں ہیٹ سپیچ یا نفرت انگیز تقریرکہلاتا ہے ۔