فروری 23, 2022 — اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایف آئی اے کو پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز (پیکا) ایکٹ کے سیکشن 20 کے تحت گرفتاریوں سے روک دیا ہے۔ عدالت نے حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ سیکشن 20 کے تحت کسی شکایت پر گرفتاری نہ کی جائے۔ اور ایف آئی اے کی جانب سے جمع کرائے گئے ایس اوپیز پر عمل کیا جائے اور ایس او پیز پر عمل نہ ہوا تو ڈی جی ایف آئی اے اور سیکرٹری داخلہ ذمے دار ہوں گے۔
پیکا آرڈیننس پر پی ایف یو جے کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ عوامی نمائندے کے لیے تو ہتک عزت قانون ہونا ہی نہیں چاہیے۔جسٹس اطہر من اللّٰہ نے مزید کہا کہ زمبابوے اور یوگنڈا بھی ہتک عزت کو فوجداری قانون سے نکال چکے ہیں۔ عدالت نے پیکا ایکٹ میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ترمیم کے خلاف درخواست پر اٹارنی جنرل کو معاونت کے لیے نوٹس جاری کردیا اور پی ایف یوجےکی درخواست پر سماعت کل تک ملتوی کردی ۔
دوسری جانب حکومتی اتحادی جماعت ایم کیو ایم پاکستان سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر امین الحق نے وزیراعظم عمران خان کو خط لکھ کر متنازع پیکا آرڈیننس پر احتجاج کی آواز سننے اور متنازع آرڈیننس واپس لینے کا مشورہ دیا ہے۔
امین الحق نے اپنے خط میں کہا ہے کہ بنیادی حقوق کے خلاف ایسے قوانین کی حمایت کسی صورت نہیں کرسکتے، ترمیمی آرڈیننس حکومت کی عوامی حمایت کیلئے خطرہ، آزادی اظہار رائے کے خلاف ہے۔ امین الحق کے مطابق
صحافت ریاست کا چوتھا ستون ہے، ہرحکومت میڈیا سے اپنے تعلقات پر فائدہ اٹھاتی رہی ہے۔لیکن ترمیمی آرڈیننس کی وجہ سے صحافی اور میڈیا تنظیمیں حکومت کے خلاف ہو رہی ہیں، وفاقی وزیر نے کہا کہ امید ہے وزیراعظم صحافتی تنظیموں، اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت سے نئی ترامیم جاری کرائیں گے۔