Update from Islamabad High Court on January 25, 2021 | English version here.
پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی (پی ٹی اے ) کی جانب سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر مواد بلاک کرنے جیسے رُولز پر شدید تنقید اور عدالتی کارروائی کے بعد وفاقی حکومت نظر ثانی کے لیے تیار ہو گئی ہے۔ اٹارنی جنرل پاکستان خالد جاوید خان ہائیکورٹ میں پیش ہوئے اور کہا کہ سوشل میڈیا رُولز حرف آخر نہیں ہیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سوشل میڈیا رُولز کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کی۔ عدالت کی جانب سے پی ٹی اے رُولز پر اٹھائے گئے سوالات کا جواب دینے اٹارنی جنرل خود عدالت میں پیش ہوئے اور اعتراف کیا کہ کسی پلیٹ فارم کو بند کردینا مسائل کا حل نہیں ہے۔ حکومت تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کے بعد سوشل میڈیا رُولز پر نظرثانی کرنے کے لئے تیار ہے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کے موقف کو مناسب قرار دیتے ہوئے ہدایت کی کہ حکومت تمام فریقین کے ساتھ مشاورت کرے اور پھر 26 فروری کو رپورٹ پیش کرے ۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کو لگتا ہے پہلے رُولز تیار کرتے ہوئےفریقین سے بالکل ہی مشاورت نہیں کی گئی۔ اظہار رائے کے بنیادی حقوق سے متعلق آئین پاکستان کے آرٹیکل 19 اور 19 اے میں سب کچھ بہت واضح ہے۔
سماعت کے دوران پی ٹی اے رُولز کو چیلنج کرنے والی تنظیموں اوردرخواستگزار صحافیوں کے وکیل اسامہ خاور نے موقف اپنایا کہ پی ٹی اے نے پہلے بھی ہمیں سنا ضرور تھا مگر ہماری تجاویز رُولز بناتے ہوئے نظرانداز کر دی گئیں ۔ اس پر اٹارنی جنرل نے یقین دہانی کرائی کہ اس بار تمام فریقین کو سن کر ان کی تجاویز کی روشنی میں ہی ایک رپورٹ تیار کر کے عدالت پیش کی جائے گی ۔ عدالت کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل پر ہمیں اعتبار ہے ۔ پاکستان بار کونسل اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ اس معاملے پر اہم اسٹیک ہولڈرز ہیں، دونوں فریقین کی تجاویز سوشل میڈیا رُولز سے متعلق کوئی بھی فیصلہ کرتے ہوئے مد نظر رکھی جائیں۔
درخواستگزاروں کی جانب سے پیش ہونے والے دوسرے وکیل کاشف ملک ایڈوکیٹ نے استدعا کی کہ پرانے خودساختہ رُولز کی روشنی میں پی ٹی اے کو کسی قسم کے اقدامات سے روکنے کے احکامات بھی جاری کئے جائیں تاہم عدالت نے یہ استدعا ان ریمارکس کے ساتھ مسترد کر دی کہ اس حوالے سے عدالت کوئی “جنرل آرڈر “ جاری نہیں کرنا چاہتی لیکن اگر پی ٹی اے اُن رُولز کے تحت کسی کے خلاف کارروائی کرے تو متاثرہ شخص عدالت سے رجوع کر سکتا ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے تمام فریقین سے مشاورت کے بعد پی ٹی اے اور وفاقی حکومت سے رپورٹ طلب کرنے کی ہدایت کے ساتھ سماعت 26 فروری تک ملتوی کر دی ہے۔ وفاقی حکومت اپنی رپورٹ میں اسٹیک ہولڈرز کی رائے لینے کے بعد بتائے گی کہ آیا پی ٹی اے از خود آئین میں دی گئی آزادی کے برخلاف محض اپنے رُولز کی بنیاد پر کوئی مواد متنازعہ قرار دیکر ہٹانے یا بلاک کرنے کا اختیار باقی رکھ سکتی ہے یا نہیں