ڈیجیٹل دنیا معاشرتی اور مذہبی تعصبات , سماجی اختلافات اور صنفی تفاوت سے بالکل الگ ایسی دنیا ہے جہاں تمام خطوں سے تعلق رکھنے والے افراد آزادانہ اپنی راۓ دے سکتے ہیں۔ یہی وہ تصور ہے جسے، ٹیکنالوجی کو ہماری زندگیوں کا حصہ بنانے والے ادارے، سامنے رکھ کر سماجی رابطوں کے نت نئے پلیٹ فارم بناتے ہیں۔
لیکن اگراعدادو شمار کو جنس کی بنیاد پر پرکھا جاۓ توپتہ چلتا ہے کہ ترقی یافتہ سے ترقی پذیر ملکوں تک انٹرنیٹ صارفین میں مردوں کی تعداد خواتین سے کہیں ذیادہ ہیں ۔
دو ہزار اٹھارہ میں لر نیشیا کولمبوکی جانب سے کی جانے والی تحقیق کے مطابق پندرہ (۱۵) سے پینسٹھ (۶۵) سال کی عمر کی 37فیصد عورتوں کے پاس موبائل فون نہیں ہے۔ اور اسی عمر کی خواتین میں سے 43 فیصد کی انٹرنیٹ تک رسائی نہیں ہے ۔
جن موضوعات پر میڈیا پر ہونے والی بحث میں خواتین کے نکتہ نظر کو یکسر فراموش کر دیا جاتا ہے ۔ اب خواتین کو ان تمام موضوعات پر اپنی بات سنانے کے لئے سوشل میڈیا میسرہے
۔ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لئے خواتین کی شمولیت اور شراکت کا خواب اتنا ہی پراناہےجتنا کہ پاکستان ۔ اس خواب کی تعبیر کےلئےاورخواتین کے مساوی حقوق کو یقینی بنانے کے لئے مختلف ادوار میں قانون سازی کی گئی اور خواتین نےاس کے لیے طویل جد و جہد کی ہے ۔
اپنےحقوق کے لئے خواتین کا سفر آج بھی جاری ہے۔ خواتین کی زندگیوں کو بہتر بنانے اور انہیں ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرنے کے لئے پاکستان میں کی جانے والی قانون سازی اور سول سوسائٹی کی کاوشوں کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی کے بڑھتے اور بدلتے رحجانات نے بھی بہت اہم اثرات مرتب کئے ۔
انٹرنیٹ اور سماجی رابطوں کے فروغ سے خواتین کو اپنی راۓ کے اظہار کے متبادل ذرائع میسر آ گئے ہیں ۔ جن موضوعات پر میڈیا پر ہونے والی بحث میں خواتین کے نکتہ نظر کو یکسر فراموش کر دیا جاتا ہے ۔ اب خواتین کو ان تمام موضوعات پر اپنی بات سنانے کے لئے سوشل میڈیا میسرہے ۔
پاکستان جیسےمعاشروں میں سالوں سے کی گئی ذہن سازی کے عمل میں خواتین کے ساتھ کچھ مخصوص تصورات جوڑ دیے گئے ہیں ۔ یہی روش ہمیں ٹیکنالوجی کے ساتھ جڑنے والی خواتین کے حوالے سے اور بھی ذیادہ نظر آتی ہے ۔ میڈیا پر کس انداز میں خواتین کی منظر کشی کی جاتی رہی ہے، اسکی دو تصاویر سامنے آتی ہیں ایک تصویر یہ ہے کہ عورت مظلوم ہے اور دوسری یہ کہ عورت سوچ اور فیصلے کے لئے مردوں پر انحصار کرتی ہے ۔ عورت کے سوچنے کے انداز اور پسند و ناپسند کو بھی روایتی طور پر پیش کیا جاتا ہےاور ایک محدود زاویے اور تاثر کو خواتین کی سوچ کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے ۔ خواتین کن موضوعات میں دلچسپی رکھتی ہیں اس حوالے سے بھی ہمارے ہاں ایک مخصوص زاویہ ہے جس کے مطابق خواتین کو ذیادہ تر فیشن ، گھر داری ، پکوان اور حقوق نسواں سے جڑے مسائل میں دلچسپی ہوتی ہے ۔ اخبارات کے بعد ٹی وی میں بھی خواتین کے لئے انہی موضوعات پر پروگرام پیشُ کئے جاتے ہیں ۔ اسی طرح خواتین کی دلچسپی کے شعبوں کی تعداد بھی کم گردانی جاتی ہے۔ ان سب سماجی فیصلوں میں خواتین کی اکثریتی براہ راست راۓ شامل کرنے کا کوئی ذریعہ موجود نہیں تھا لہذا ان روایتی زاویوں سے پرے خواتین کی راۓ کو اہمیت نہیں دی گئی ۔
عورت کے سوچنے کے انداز اور پسند و ناپسند کو بھی روایتی طور پر پیش کیا جاتا ہےاور ایک محدود زاویے اور تاثر کو خواتین کی سوچ کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے
انٹرنیٹ انقلاب کا ایسا دور ہے جس نے سوچ اوراظہار راۓ کا عالمی منظر نامہ بدل دیا ۔انٹرنیشنل ٹیلی کمیونیکیشن یونین کے اعدادو شمار کے مطابق دنیا کی نصف سے زائد آبادی 56.1 فیصد انٹرنیٹ استعمال کرتی ہے ۔
ترقی یافتہ اور ترقی پذیر مما لک میں انٹرنیٹ کے صارفین کی شرح میں کافی فرق ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں انٹرنیٹ صارفین کی شرح 81فیصد ہے۔ دو ہزار ا ٹھا رہ (۲۰۱۸) کے اعدادو شمار کی مطابق دنیا میں 100ملین سے زائد افراد سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں۔
گلوبل ڈیجیٹل رپورٹ کے مطابق پاکستان کی آبادی کا تقریبا اکیس(۲۱) فیصد موبائل انٹرنیٹ کا استعمال کرتا ہے ۔موبائل سبسکرپشن 150 ملین سے زائد ہیں ۔ دو ہزار اٹھارہ(۲۰۱۸) سے دو ہزار انیس(۲۰۱۹) تک موبائل سبسکرپشن میں آٹھ ملین کا اضافہ ہوا ۔ جبکہ گلوبل ڈیجیٹل رپورٹ کے اعدادو شمار کے مطابق پاکستان میں سوشل میڈیا کے صارفین کی تعداد 37ملین ہے جو کل آبادی کا اٹھارہ فیصد ہے ۔
دنیا میں کتنے لوگ آن لائن ہیں ؟ کیا مرد اور عورتیں یکساں تناسب سے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا استعمال کرتی ہیں ؟۔ خواتین انٹرنیٹ صارفین کی تعداد مردوں کی نسبت 250ملین کم ہے۔
خواتین جن کو اپنی شناخت منوانے کے لئے ہمیشہ مشکلات کا سامنا رہا ان کے لئے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے نئے دروازے کھول دئیے ھیں
پلین انٹرنیشنل کے ایک حالیہ ر یسرچ کے مطابق اگر دنیا کی چھ سو ملین عورتوں کو انٹرنیٹ تک رسائی دی جاۓ تو تین سالوں میں یہ گراس ڈومیسٹک پروڈکٹ کئ شکل میں تیرہ سے اٹھارہ بلین کے اضافے کے برابر ہو گی۔۔
دو ہزار اٹھارہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں انٹرنیٹ کی پہنچ 68 ملین افراد تک ہے جن میں سے اکیس فیصد مرد جبکہ بارہ فیصد عورتیں ہیں ۔ ایک اندازے کے مطابق اگر انٹرنیٹ تک رسائی یقینی بنائی جاۓ تو دنیا کی تیس فیصد عورتوں کی کمائی میں اضافہ ہو سکتا ہے اور 45 فیصد خواتین آن لائن ملازمت کی تلاش کر سکتی ہیں۔
پاکستانی خواتین کی زندگی انٹرنیٹ کی وجہ سے بدل رہی ہے۔ خواتین جن کو اپنی شناخت منوانے کے لئے ہمیشہ مشکلات کا سامنا رہا ان کے لئے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے نئے دروازے کھول دئیے ھیں
بلاگر عمارہ شاہ کا کہنا تھا کہ ان کے لئے سوشل میڈیا آواز اٹھانے کا ذریعہ بنا ۔ اگرچہ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مردوں کی نسبت کم خواتین سوشل میڈیا پر ایکٹو ہوتی ہیں مگر سنجیدہ سماجی مسائل اور انسانی حقوق کی موضوعات پر جب بھی بات ہو رہی ہو ان پر خواتین ذیادہ تعداد میں بات کرتی ہیں۔
خواتین کی ایک بڑی تعداد گھر بیٹھے سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی کمائی کے ذرائع بھی بڑھا رہی ہیں ۔ بالخصوص فیس بک پیجز اور انسٹا گرام کے ذریعے مختلف بزنس کر رہی ہیں ۔
ماہم علوی فیس بک پر خواتین کا انویسٹمنٹ فورم چلاتی ہیں جہاں چھ ہزار سے زائد خواتین رکن ہیں ۔ ان خواتین میں سٹاک ایکسچینج ، جائیداد کی خریدو فروخت اور کارپوریٹ سیکٹر میں کام کرنے والی خواتین کے ساتھ ساتھ گھر میں بیٹھی ہوئی خواتین بھی شامل ہیں۔ یہ فورم خواتین کو مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے کے لئے تکنیکی مدد فراہم کرتا ہے ۔ بنیادی معلومات کے علاوہ اس فورم پر ایڈوانس انویسٹمنٹ کے حوالے سے بھی خواتین کو مدد بھی دی جاتی ہے ۔ ماہم کہتی ہیں کہ یہ فورم بنانے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ عورتوں کو سرمایہ کاری کرنے کا اعتماد دیں اور انہیں ایک محفوظ ماحول بھی ملے جہاں وہ اپنی معلومات میں اضافہ کر سکیں۔ انویسٹمنٹ کافی پیچیدہ شعبہ سمجھا جاتا ہے اور ہمیں یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ مردوں کی موجودگی میں خواتین بنیادی معلومات کے حوالے سے سوالات کرنے میں پر اعتماد نہیں محسوس کرتی کیونکہ مردوں کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ سرمایہ کاری جیسے مشکل کام کرنے کے لئے خواتین میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے مگر خواتین نے زندگی کے ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا کر اس تاثر کو غلط ثابت کیا ہے ۔
خواتین کی ایک بڑی تعداد گھر بیٹھے سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی کمائی کے ذرائع بھی بڑھا رہی ہیں ۔ بالخصوص فیس بک پیجز اور انسٹا گرام کے ذریعے مختلف بزنس کر رہی ہیں ۔
ماہم علوی کا کہنا تھا کہ ان کے گروپ میں کامیاب سرمایہ کار خواتین نئی آنے والی اراکین کو رضاکارانہ طور پر مدد فراہم کرتی ہیں۔ان کے پاس سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے علاوہ کوئی فورم موجود نہیں تھا ۔ جس طرح ویمن انویسٹمنٹ فورم کامیابی سے چل رہا ہے، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔کہ اگر عملی زندگی میں بھی عام عورت کی حوصلہ افزائی کی جاۓ اور اسے سازگار ماحول فراہم کیا جاۓ تو خواتین مجموعی معاشی ترقی میں بھرپور کردار ادا کر سکتی ہیں۔
حفصہ نسیم ایک اور ایسی ہی مثال ہیں جنہوں نے “کیرئر ہر”کے نام سے فیس بک پر خواتین کی ایک کمیونٹی بنائی ہوئی ہے ۔ حفصہ نے یہ گروپ خواتین کو گھر بیٹھے فنی تربیت دینے کے عزم سے شروع کیا ۔ اس گروپ پر خواتین کو مختلف بزنس کرنے کے حوالے سے ضروری تربیت دی جاتی ہے۔ اور خواتین کیسے اپنے آپ کو معاشی طور پر مستحکم بنا سکتی ہیں اس حوالے سے نئے آئیڈیا ز خواتین کے ساتھ شئیر کئے جاتے ہیں۔ حفصہ کا کہنا تھا کہ خواتین کو بزنس کرنے کا شوق ہوتا ہے مگر مطلوبہ معلومات اور تربیت کا فقدان ان کے راستے کی رکاوٹ بن جاتا ہے ۔ اکثریت خواتین کو بزنس کرنے کے لئے فنی تربیت کے کورسز جوائن کرنے کے لئے بعض اوقات خاندان کی طرف سے مدد نہیں ملتی اور بعض دفعہ معاشی حالات مہنگے پروفیشنل کورسز رکاوٹ بن جاتے ہیں ۔
ویمن انجینرز پاکستان ایک اور ایسی مثال ہے جو خواتین کے بڑھتے کردار کا عکاس ہے۔ پاکستانی خواتین کی سائنس ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کے شعبوں میں نمائندگی صرف گیارہ فیصد ہے۔ ویمن انجینرنگ پاکستان، خواتین کی سائنس، ٹیکنالوجی اور انجینرنگ میں رہنمایؐ کر رہی ہے۔
سماجی رابطوں کے پلیٹ فارمز کو ملک کی اہم خواتین رہنما جیسا کہ مریم نواز شریف ، ملالہ اور فاطمہ بھٹو اور سیاست، صحافت اور سوشل ورک سے تعلق رکھنے والی اور بہت ساری نمایاں خواتین بہت متحرک طریقے سے استعمال کرتی ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شاذ یہ مری کہتی ہیں کہ سوشل میڈیا پر خواتین کی موجودگی معاشرے میں خواتین کی حیثیت میں مثبت تبدیلی کے لئے بہت اہم ہے۔ لیکن مردوں کی نسبت انٹرنیٹ اور سو شل میڈیا پر خواتین کی کم تعداد اور خواتین کی مباحث میں کم شمولیت انہیں پریشان کرتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ بالکل ویسی ہی صورتحال ہے جیسے وہ عام زندگی میں خواتین کو محدود دیکھتی ہیں۔
گزشتہ چند سالوں میں خواتین کی عملی سیاست میں شمولیت میں اضافہ ہوا ہے ۔ سیاسی جلسوں اور احتجاج میں بڑی تعداد میں خواتین نے شرکت کر کے یہ پیغام دیا کہ وہ ملک کی سیاست پر اپنی نا صرف راۓ رکھتی ہیں بلکہ اس کے اظہار کے لئے بھی پر عزم ہیں یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ خواتین سیاسی ۔
سوشل میڈیا پر خواتین کی موجودگی معاشرے میں خواتین کی حیثیت میں مثبت تبدیلی کے لئے بہت اہم ہے
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شاذ یہ مری
صورتحال پر تبصرہ کرنے کے علاوہ اپنی راۓ کو متعلقہ اشخاص تک پہنچاتی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے وفاقی وزیر شفقت محمود کہتے ہیں کہ انہیں ٹویٹر اور فیس بک پر خواتین اپنی سیاسی آراء اور اپنے مسائل کے حوالے سے آگاہ کرتی رہتی ہیں۔ اور جو مسائل ان کی جماعت یا وزارت سے متعلق ہوں وہ ان پر جواب بھی دیتے ہیں۔ سندھ حکومت کے ترجمان مرتضی وہاب کے خیال میں سوشل میڈیا کی بدولت خواتین کا براہ راست فیڈ بیک مل جاتا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ خواتین ان کی پوسٹس پر کمنٹس کے علاوہ ان کو سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی سے جڑے معاملات پر بھی راۓ دیتی ہیں۔
پاکستان مسلم لیک کی رہنما رومینہ خورشید عالم کا کہنا تھا کہ خواتین اپنے مسائل پر آواز اٹھانے کے لئے سوشل میڈیا پر ان سے اور ان کی پارٹی کے دیگر رہنماؤں سے رابطہ کرتی ہیں۔ یہ اس بات کا اظہار ہے کہ خواتین چاہتی ہیں کہ سیاسی فیصلوں میں ان کی راۓ کا احترام کیا جاۓ۔
خواتین آرٹ کلچر سے لے کر سرمایہ کاری اور انجینرنگ جیسے شعبوں میں آگے بڑھنے کے لئے سوشل میڈیا کا استعمال کر رہی ہیں ۔ وہ ادارے جو خواتین کی معاشرے میں حیثیت منوانے کے لئے جدو جہد کر رہے ہیں ان کو سوشل میڈیا پر خواتین کی براہ راست شمولیت کو بڑھانے پر توجہ دینی چاہئے
معروف صحافی ماریہ میمن کا کہنا ہے کہ فیس بک پر جہاں وہ ذیادہ تر سیاسی حوالوں سے پروگرام شیر کرتی ہیں وہاں خواتین کی بہت کم تعداد ان سے انٹر ایکٹ کرتی ہے۔ مگر ٹویٹر پر اپنے تاثرات شئیر کرنے والی خواتین کی تعداد ذیادہ ہے۔ ماریہ میمن کا کہنا تھا کہ اگرسیاسی رہنماؤں اور اہم لوگوں کے سماجی رابطوں کے اکاؤنٹس دیکھے جائیں تو یہ بات بڑی واضح ہے کہ خواتین ملکی معاملات اور علاقائی حالات میں مکمل دلچسپی رکھتی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ خواتین آرٹ کلچر سے لے کر سرمایہ کاری اور انجینرنگ جیسے شعبوں میں آگے بڑھنے کے لئے سوشل میڈیا کا استعمال کر رہی ہیں ۔ وہ ادارے جو خواتین کی معاشرے میں حیثیت منوانے کے لئے جدو جہد کر رہے ہیں ان کو سوشل میڈیا پر خواتین کی براہ راست شمولیت کو بڑھانے پر توجہ دینی چاہئے ۔ سوشل میڈیا پر خواتین کے رحجانات کو سامنے رکھتے ہوۓ خواتین سے جوڑے گئے ادھورے اور بعض اوقات حقائق سے منافی تصورات کی عملی زندگی میں بھی نفی ہونی چاہئے ۔ خواتین کی آوازوں کو قومی دھارے میں شامل کرنا ضروری ہے تا کہ خواتین کا دہائیوں سے جاری استحصال ختم ہو سکے۔