بیس اعشاریہ سات ملین افرادپر مشتمل پاکستان میں پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی کے مطابق ملک کی آڑسٹھ (۶۸) ملین افراد انٹرنیٹ کی تھری جی اور فور جی سہولیات استعمال کر رہے ہیں۔ ٹیکنالوجی کی تیز رفتاری کے پیش نظر پاکستان میں مستقبل کی ٹیکنالوجیز خصوصاً 5جی کی تیاری کے لئے فریم ورک تیار کیا جا رہا ہے جس سے انٹرنیٹ تیز رفتاری کے ایک نئے دور میں داخل ہوجا ئے گا۔ انٹرنیٹ کی تیز رفتاری اور سوشل میڈیا خاص کر فیسبک اور ٹوئٹر کے آتے ہی لوگوں کی معاشرتی زندگی میں ایک کھلبلی سی مچ گئی ہے، جہاں لوگ آپس میں بیٹھ کر باتیں کرتے تھے، اپنے مسائل بیان کرتے تھے انٹرنیٹ نے ان سب کو ڈیجیٹل کمیونیٹیز میں بدل دیا،خیالات کا اظہا ر اب فیسبک گروپس پر ہوتا ہے۔
،فیسبک، ٹوئٹر اور ان پر ابھرتے الفاظ کبھی کسی کی زندگی سنوار دیتے ہیں تو کہیں زندگیوں کے بگاڑ کا سبب بن جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا کو کسی نے اپنے لئے کامیابی کا زینہ بنا یا تو کسی نے صرف اپنے وقت گزاری کا سامان بنا یا غرض یکہ سوشل میڈیا صارفین نے اپنی سمجھ اور ضرورت کے مطابق استعمال کیا اور معاشرے کے کئی پہلووں میں بدلاؤ کا سبب بنا۔
خواتین معاشرے کی ایک اہم اکائی ہیں اور کہتے ہیں کہ خواتین ہی معاشرے میں تبدیلی کا سبب بنتی ہیں۔ پاکستانی معاشرہ جہاں خواتین کو پلیٹ فارم میسر ہی نہیں تھا جہاں وہ اپنے مسائل، اپنی خوشیاں، اپنی کامیابیاں شیؑرکرسکتیں، سوشل میڈیا کی ایجاد فیسبک نے تمام مسائل کا حل نکال دیا ہے۔
جو نوجوان لڑکیاں اپنے پیروں پہ کھڑا ہو کہ ایک خودمختار انسان بننا چاہتی ہیں وہ بھی ان گروپس کے زریعے اپنے کاروبار کو آگے بڑھانے کی تگ و دو میں ہیں
وومن امپاورمنٹ کی طرف اٹھاےؑ گئے اقدام میں سے بہترین قدم فیسبک میں کلوزڈ گروپس چلانے والی خواتین نے اٹھایا جنہوں نے فیسبک کے پلیٹ فارم کو خواتین کے لئے اس حد تک محفوظ بنا یا کہ وہ اپنے مسائل بلاجھجک بیان کر کے باقی خواتین سے مشورے کی امید بھی رکھتی ہیں۔ یہ گروپس خواتین کو ایسا پلیٹ فارم مہیا کرتے ہیں جہا ں وہ زندگی کے کسی بھی مسلے کے بارے میں بات کر سکتی ہیں۔ پاکستانی خواتین جن گروپس کا حصہ سب سے زیادہ بنتی ہیں اس میں دی پاکستانی سسٹرز، دی پلم ٹاک اور پکار جہاں خواتین اپنے مسائل کے ساتھ ساتھ اپنے کاروبار اور اپنے لئے روزگار کے مواقع بھی تلاش کرتی ہیں۔ ایسی ہی ایک مثال دی پاکستانی سسٹرزگروپ کی ہے جس میں 26ہزار سے زیادہ خواتین ہیں۔
روزانہ کی بنیاد پر مسائل ڈسکس کرنے والی ان خواتین نے ایک ڈیجیٹل کمیونٹی کی بنیاد رکھ دی ہے پورے پاکستان اور بیرون ملک سے تعلق رکھنے والی خواتین انگروپس کا حصہ ہیں چاہیے وہ کسی بھی مذہب، قوم، زبان کا حصہ ہو اور ان گروپس کا خاصہ یہ کہ انہوں نے خواتین کو متحد اور باخبربنایا ہے۔ جو نوجوان لڑکیاں اپنے پیروں پہ کھڑا ہو کہ ایک خودمختار انسان بننا چاہتی ہیں وہ بھی ان گروپس کے زریعے اپنے کاروبار کو آگے بڑھانے کی تگ و دو میں ہیں۔ دی پاکستانی سسٹرز گروپ میں سوموار اور منگل کو پروموشن ڈے کا نام دیا گیا ہے جہاں خواتین اپنے کاروبار کو آگے بڑھانے کے لئے ان گروپس میں اشتہار لگاتی ہیں جن سے ان کے کاروبارمیں ترقی اور کسٹمرز میں ا ضافہ ہوتاہے۔
یہ میری اور میرے جیسی کؑی لڑکیوں کی کہانی ہے جنہوں نےخود مختار بننے اور اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لئے ان گروپس کا سہارا لیا۔ اس گروپ کا حصہ بننے کے بعدکے میں نے وہا ں اپنے فوٹو گرافی سٹوڈیو کا اشتہار لگایا اور تقریبا ایک ہفتے بعد مجھے میسج ملا کہ اپکے سٹوڈیو کا اشتہار فیسبک کے گروپ میں دیکھا اور ہم آپ کو شادی کا آرڈر دینا چاھتے ہیں او ر یہاں سے میری کامیابی کا سفر شروع ہوا، یہ کہانی میری ہے لیکن مجھ جیسی اور ہزاروں خواتین اپنے گھر ان گروپس کے ز ریعے چلا رہی ہیں، بڑھتی ہوئی بیروزگاری میں سوشل میڈیانے ان خواتین کو گھر سے کاروبار چلانے کے مواقع دئے ہیں جہاں خواتین ملبوسات کی خریدوفروخت، مہندی لگانے کی سروسز، کھانا، اور جیولری جیسی اشیاء گھربیٹھے ان گروپس کے زریعے بیچ کے پیسے کما رہی ہیں۔ کاروبار کے ساتھ ساتھ ان گروپس میں خواتین ہر قسم کے مسائل کے حل کے تلاش میں سرکرداں ہوتی ہیں کسی خاتون کو اپنے بچے کے لئے کسی اچھے ڈاکٹر کی ضرورت ہو یا کسی خاتون کو پریگننسی کے دوران ہونے والے مسائل کا حل چاہئے ہو، ان فیسبک گروپس نے اب گھر کی چاردیواری کے اندر ہر مسلے کا حل نکال کے دے دیا ہے۔ مسائل کو تب بڑھاوا ملتا ہے جب ان کو چھپا کہ رکھا جائے اور ان کا بروقت حل نہ نکالا جائے، اسی حوالے سے حیدر آباد سے تعلق رکھنے والے سئکالوجسٹ کاشف سومرو کا کہنا ہے کہ مسائل کو کسی کے ساتھ ڈسکس نہ کرنے سے ڈپریشن میں مزید اضافہ ہوتا ہے اور اگر اپنے مسائل کسی کو بتائے جایؑں تو 80 فیصد چانسز ہوتے ہے کہ آپ کا ڈپریشن ختم ہوجائے اس لئے مسائل کو خود تک محدودنہیں رکھنے چاہئے۔پاکستانی معاشرے کا ایک اہم مسلہ یہ بھی رہا ہے کہ خواتین گھر میں مزید لڑائی جھگڑے کے خوف کی وجہ سے چپ سادھ لیتی تھی تو کبھی بدنامی کے ڈر سے اپنے لب سی لیتی تھی جس کی وجہ سے مسائل حل ہونے کے بجائے مزید بگڑ جاتے تھے لیکن ٹیکنالوجی کی ترقی اورسوشل میڈیانے خواتین کو ایسے پلیٹ فارم مہیا کردئے ہیں جہاں وہ کھل کر ہر مسلے کو حل کر سکتی ہیں چاہے وہ مسلہ ازدواجی زندگی کے حوالے سے ہو ،یا پھر ذہنی
یہ کہانی میری ہے لیکن مجھ جیسی اور ہزاروں خواتین اپنے گھر ان گروپس کے ز ریعے چلا رہی ہیں، بڑھتی ہوئی بیروزگاری میں سوشل میڈیانے ان خواتین کو گھر سے کاروبار چلانے کے مواقع دئے ہیں
دی پاکستانی سسٹرز گروپ کی بانی اور ایڈمن افراہ حسن کہتی ہیں کہ کبھی کبھار ان کے پاس انتہائی حساس مسلہ پوسٹ کرنے کے لئے آجاتا ہے جیسا کہ ایک خاتون نے بہت ہمت جمع کر کے گروپ میں پوسٹ کیا کہ وہ پچھلے 6سال سے اپنے بہت ہی قریبی رشتہ دار کے ہاتھوں جنسی تشدد کا نشانہ بنتی آرہی ہیں لیکن بدنامی کی ڈر کی وجہ سے وہ کسی سے مدد نہیں لے سکتی، اس مسلے کے حل کے لئے اس گروپ میں موجود بہت سی خواتین نے اپنی رائے کا اظہار کیا اور افراہ حسن کا کہنا ہے کہ وہ پر امیدہیں کہ وہ خاتون اب اس مسلے سے نکل چکی ہونگی۔
ان گروپس کا ماحول سازگار بناناا کوئی آسان کام نہیں۔ اسی حوالے سے دی پاکستانی سسٹرز گروپ کی بانی اور ایڈمن افراہ حسن کہتی ہیں کہ وہ کسی بھی خاتون کو گروپ کا حصہ بنانے سے پہلے خود ان کی پروفائل کی جانچ پڑتال کرتی ہیں کہ واقعی وہ خاتون ہیں بھی یہ نہیں کیونکہ ان کے گروپ میں انتہائی ذاتی نوعیت کے مسائل ڈسکس کئے جاتے ہیں اوراس وجہ سے وہ کوشش کرتی ہیں کہ زیادہ تر ان خواتین کو گروپ کا حصہ بنایا جاےؑ جو پہلے سے ممبر خواتین کی دعوت نامے پہ آنا چاہیتی ہوں، اس کے علاوہ ان کا کہنا ہے کہ وہ بہت ھی مخصوص تعدادمیں خواتین کو گروپ کا حصہ بناتی ہیں تاکہ گروپ میں کسی قسم کا کوئی منفی تاثر پیدا نہ ہو۔ یہ گروپ خواتین کے مسائل حل کرنے کے لئے بنایا گیا ہے تو اگر کوئی خاتون کسی قسم کی منفی بات یا مسائل کو بڑھاوا دینے کی کوشش کرتی ہے تو انکو اسی وقت گروپ سے بلاک کیا جاتا ہے۔ افراہ حسن کا یہ کہنا ہے کہ خواتین پہلے ہی گھر کے مسائل سے پریشان ہوتی ہیں تو اگر انکے لئے آسانیوں کے بجائے مزید مسائل بڑھیں تو ان کا گروپ معاشرے کے لئے مزید نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ ہزاروں خواتین ان گروپس کا حصہ بننا چاہتی ہیں اور تاکہ وہ اپنے مسائل کے حل کے لئے ایک دوسرے سے مشورہ کرسکیں اسی حوالے سے ان گروپس کی انڈمنز کا کہنا ہے کہ ان کو روزانہ 150سے 200تک پوسٹس موصول ہوتی ہیں لیکن ایک ہی دن میں اتنی زیادہ پوسٹس کرنا مشکل ہوجاتا ہے اس لئے وہ صرف روزانہ کی بنیاد پر 50سے 60تک پوسٹس گروپس میں شئیر کرتی ہیں تاکہ خواتین تک معیاری مواد کی ترسیل ہوسکے اور لوگوں کے ذہنوں پر بوجھ نہ بنے اور ایک خوشگوار ماحول میں لوگوں کے مسائل حل ہو سکیں
۔پوسٹس شئیر نہ ہونے کی صورت میں کچھ خواتین ایڈمنز کو تنقید کا نشانہ بھی بناتی ہیں لیکن ایڈمنز کا کہنا ہے کہ شروع شروع میں خواتین کی تنقید سے ان کو مسلہ ہوا کرتا تھا لیکن وقت کے ساتھ خواتین میں شعور آتا جا رہے کہ مقدار سے زیادہ معیار بہتر ہے اس لئے وہ خوش ہیں۔گروپس کی ایڈمنز کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کی ہر ممکن حد تک کوشش ہوتی ہے کہ گروپ میں کوئی ایسی پوسٹ نہ کی جائے جس کی وجہ سے قوم، زبان، تہذیب، فرقے یا مذہب کےحوالے سے لوگوں کے جزبات مجروح ہوں کیونکہ انتہا پسندی کی فضا ء کو جس حدتک کنٹرول میں رکھا جا سکتا ہے اتنا ہی معاشر ے کے لئے اچھا ہے
جیا شاہ کی طرح باقی خواتین کا بھی یہی کہنا تھا ان گروپس میں اپنے مسائل شئیر کرنے سے ان کو بہت ہمت ملتی ہے اور جو مسائل وہ گھر والوں سے ڈسکس نہیں کرسکتی وہ یہاں آرام سے شئیر کرسکتی ہیں
۔دنیا کا کوئی کام محنت کے بغیر نہیں کیا جا سکتا لیکن کچھ لوگ ان کاموں کے بدلے معاوضے وصول کرتے ہیں تو کچھ لوگ صرف خوشیاں بانٹتے ہیں اسی طرح ان گروپس کو چلانے والی باہمت خو اتین معاشرے کی دیگر خواتین کو یہ حوصلہ دیتی ہیں کہ وہ اکیلی نہیں ہیں اور اس معاشرے کی باہمت فرد ہیں۔ ان گروپس کا حصہ بننے والی ہر خاتون کی ایک اپنی کہانی ہے، کسی نے اپنی ازدواجی زندگی کا مسلہ بیان کیا تو باقی خواتین نے مشورہ دے کے ان کی زندگی بہتر بنائی، کسی خاتون کو پیسوں کی ضرورت تھی تو کسی صاحب حیثیت خاتون نے اس کی مدد کر کے دعائیں سمیٹی، کسی خاتون کو دعاوئں کی ضرورت تھی تو سب نے مل کر اس کے لئے دعا کی، کسی سفید پوش خاتون کو بیٹی کے جہیز کے لئے سامان کی ضرورت تھی تو سب نے بڑھ چڑھ کے حصہ لیا، کسی خاتون کے بچیے بیمار تھے تو سب نے اس کو اچھے ڈاکٹرکا مشورہ دیا غرضییکہ ہر خاتون اپنے مسلے کا حل لے کے ہی یہاں سے گئی، اس حوالے سے جیا شاہ کا کہنا تھا کہ شادی کے بعد وہ بہت سے مسائل سے دوچار تھی اور زندگی کا ایک مسلہ جس کی وجہ سے وہ ذہنی اور جسمانی طور پر دن بدن بیمار ہوتی جا رہی تھی اور گھر میں کسی سے اس حوالے بات بھی نہیں کرسکتی تھی وہ انہوں نے اس گروپ میں اپنی شناخت سامنے لائے بغیر شئیر کیا اور خواتین کی مدد اور مشورے سے وہ اس مسلے سے بہت جلد باہر نکل آئیں اور آج اپنی زندگی خوشی سے گزار رہیں۔
جیا شاہ کی طرح باقی خواتین کا بھی یہی کہنا تھا ان گروپس میں اپنے مسائل شئیر کرنے سے ان کو بہت ہمت ملتی ہے اور جو مسائل وہ گھر والوں سے ڈسکس نہیں کرسکتی وہ یہاں آرام سے شئیر کرسکتی ہیں کیونکہ ان کو اس بات کا ڈر نہیں ہوتا کہ انکے مسائل اس گروپس باہر کہیں پوسٹ ہونگے۔
سب سے زیادہ پوسٹ ہونے والے مسائل میں ازدواجی مسائل ہیں جن کی وجہ سے وہ نوجوان لڑکیاں جو غیر شادی شدہ ہیں وہ اب شادی کے بندھن میں بندھنے سے ڈرنے لگی ہیں۔
لیکن ہر تصویر کے دو رخ ہوتے ہیں، اگر کوئی چیز بہت فائدہ مند ہو تب بھی کوئی سا ئیڈ افیکٹ ھوتا ھی ہے۔جہاں گروپس کے بہت سے فوائد ہیں وہی کچھ خواتین ان گروپس کی وجہ سے ڈیپریشنکا شکار بھی ہوتی جا رہی ہیں، معاشرتی مسائل جیسے جنسی تشدد، گھریلو تشدد اور اسی طرح کے ہزاروں کیسز جب ان گروپس میں شیئر ہوتے ہیں تو مشورہ دینے کے بجائے کچھ خواتین ان کو پڑھ کر ڈیپرشن کا شکار ہوجاتی ہیں اسی حوالے سے ان گروپس کی ایک ممبر کومل خٹک کا کہنا ہے کہ انکو شروع سے ہی شادی سے ڈر لگتا تھا لیکن جب سے وہ ان گروپس کا حصہ بنی ہیں اور آئے روز ان کی نظر کے سامنے ایسی پوسٹس جن میں کسی ازدواجی مسلے یا گھریلو تشدد کا ذکر ہو تو وہ ان کو دیکھ کر ڈیپریشن کا شکار ہوجاتی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اگر وہ کبھی بہت مایوس ہوں تو یہاں آکر لوگوں کی کہانیاں سن کر بہت شکر بھی ادا کرتی ہیں کہ وہ بہت سے لوگوں سے بہتر ہیں۔ جبکہ کچھ خواتین اپنے مسائل ان گروپس میں بیان کرنے سے بھی ڈرتی ہیں کیونکہ وہ نہیں چاہتیں کہ اپنے مسائل لوگوں کو بتا کہ وہ کسی قسم کی تنقید کا نشانہ بنیں کیونکہ ان ممبر خواتین کا کہنا ہے کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے کچھ خواتین ایسی ہیں جو چاہ کہ بھی اپنے اندر کی منفی خیالات کو اپنے تک نہیں رکھ سکتیں اور مسلے کا حل دینے کے بجائے کبھی کردار کشی شروع کردیتی ہیں تو کبھی خاتون کو ہی قصوار ٹہرادیتی ہیں جس کی وجہ سے مسلہ حل ہونے کے بجائے مزید ذہنی اذیت کی وجہ بن جاتا ہے۔سب سے زیادہ پوسٹ ہونے والے مسائل میں ازدواجی مسائل ہیں جن کی وجہ سے وہ نوجوان لڑکیاں جو غیر شادی شدہ ہیں وہ اب شادی کے بندھن میں بندھنے سے ڈرنے لگی ہیں۔
فیسبک میں صر ف یہ گروپس نہیں ہیں جو خو اتین کے لئے ایک پلیٹ فارم کی حیثیت سے کام کر رہے نہیں بلکہ ایسے گروپس بھی ہیں جو مرد اور خواتین دونوں کے مسائل کو برابر کی اہمیت دیتے ہیں، پاکستانی معاشرے میں ڈیپریشن اور ذہنی بیماریوں کو اہمیت نہیں دی جاتی یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں خودکشی کی وجہ سے شرح اموات سب سے زیادہ ہے۔ ذہنی بیماریوں کے حل کے لئے کچھ باہمت خواتین نے فیسبک کا سہارا لیتے ہوئے ایک کلوزڈ گروپ بنایا جس کو پکار کا نام دیا گیا جس کا مقصدخاموشی کو توڑو اور سب کہہ دو، اس گروپ کا حصہ صرف خواتین ہی نہیں ہیں بلکہ مرد بھی اپنے مسائل شئر کر کے انکاحل ڈھونڈتے ہیں۔ اس گروپ کا حصہ بننے والے بہت سے ممبرز کا کہنا ہے کہ وہ اپنی زندگی سے مایوس ہوچکے تھے کہ موت کے علاوہ کوئی حل نہیں سمجھتے تھے لیکن اس گروپ میں اپنا مسلہ بیان کر کے اورلوگوں کے ہمت اورحوصلہ دلانے کی وجہ سے آج وہ زندگی کی طرف لوٹ چکے ہیں۔ پکار کے ایڈمنز کا کہنا ہے کہ خوشیاں بانٹنے سے ملتی ہی اور اگر ہماری کوششوں کی وجہ سے کوئی اپنی زندگی کی طرف لوٹ آتا ہے تو یہ ان کی بہت بڑی کامیابی ہوگی۔
کچھ عرصہ پہلے تک سوشل میڈیا اور فیسبک صرف لوگوں کی تفریح کا باعث تھا جہاں لوگ صرف وقت گزاری کرتے تھے لیکن وقت کے ساتھ لوگوں میں شعور آرھا ہے اور وہ فیسبک کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کرنا شروع کرچکے ہیں اور انٹرنیٹ نے معاشرے کو ڈیجیٹل بنایا دیا ہے۔ مسائل کے حل کی تلاش ہو یا اپنے لئے روزگارکا حصول ڈیجیتل دنیا میں سب کے لیے کچھ نا کچھ ہے۔
ضروری ھے کہ فیسبک پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے صبرو تحمل کا مظاہرہ کریں اور دلائل کے ساتھ گفتگوکریں ۔ فیسبک کو زحمت بنتے دیر نہیں لگتی اس لئے سوچ سمجھ کہ بولیں اور لکھیں کیونکہ فیسبک پہ تو سب کے لب آزادہیں۔