باجوڑ۔ کورونا وائرس نے ملک کے دیگرحصوں کی طرح خیبرپختونخواہ کے ضلع باجوڑ میں بھی ہر شعبہ ہائے زندگی کو متاثر کیا۔ باجوڑ میں 27 مارچ سے لیکر27 نومبرتک کورونا کے 665 کیسز سامنے آ چکے ہیں۔ گیارہ لاکھ آبادی والے اس ضلع میں دیگر پیشوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی طرح صحافیوں کو بھی ان کی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں سرانجام دینے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اورکئی صحافی اس دوران کورونا وباء کی زد میں آئے۔
کووڈ پازیٹو اور نفسیاتی دباؤ
باجوڑ پریس کلب کے ممبراور روزنامہ پاکستان اور7 نیوزچینل سے وابستہ صحافی محمد یونس کورونا وباء کے دوران اپنی صحافتی سرگرمیوں میں پیش پیش تھے اورشاید یہی وجہ تھی کہ وہ خود بھی کورونا کا شکار ہوۓ۔
محمد یونس کہتے ہیں کہ انہوں نے کورونا کا ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد 22 دن قرنطینہ میں گزارے۔ ”یہ میری پیشہ وارانہ زندگی میں مشکل ترین دن تھے اور میں نے کبھی بھی اتنے دن کام کے بغیر نہیں گزارے تھے،“ یونس نے بتایا۔ ”ان دنوں نہ صرف میرا اپنے ادارے کے ساتھ رابطہ منقطع ہوا بلکہ اپنے پریس کلب کے ساتھ بھی رابطہ نہیں ہوتا تھا“۔
دراصل پریس کلب کے چار ممبران میں کورونا وائرس کی تصدیق ہونے پر پریس کلب کی عمارت کو بھی بند کر دیا گیا تھا۔ باجوڑ پریس کلب مقامی صحافیوں کے کام میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ضلع بھرمیں کام کرنے والے تقریباً پچاس صحافیوں میں سے 46 اس کے رکن ہیں۔ وہ معلومات کے تبادلے کیلئے باہمی رابطے اور انٹرنیٹ اور دیگر سہولیات کے استعمال کیلئے پریس کلب کا رخ کرتے ہیں۔ کورونا کی روک تھام کے پیش نظر پریس کلب کو بند کرنا ضروری تھا لیکن اس سے اب مقامی صحافیوں پر صاف ظاہرہوگیا تھا کہ وہ کورونا کے سامنے کس قدرغیرمحفوظ تھے۔

کوہ نورچینل کے رپورٹر احسان الله خان نے کہا کہ جب انکے صحافی دوست کورونا کا شکار ہوئے تو وہ سب ذہنی دباؤ کا شکار ہوگئے تھے۔ “ہم نے اس سلسلے میں نفسیات کے ڈاکٹرز سے بھی رجوع کیا تھا اوران کی ہدایت پر عمل کرنے کی کوشش کی تھی،” احسان الله نے بتایا۔
ضلع باجوڑ میں موجود ماہر نفسیات ڈاکٹر رحمت اللہ نے بتایا کہ کورونا کے دوران ذہنی الجھن سے دوچار افراد کی تعداد میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ جہاں روزانہ کے بنیاد پر 10 سے 20 مریضوں کو دیکھتے تھے وہاں اب تعداد 40 سے 50 مریضوں تک پہنچ گئی ہے جس میں زیادہ تر تعداد نوجوانوں کی ہے۔
ڈاکٹر رحمت نے کہا کہ انہوں نے فیس بک پراپنا پیج بنایا تھا اور واٹس ایپ پرگروپ بنایا تھا جن پراکثرصحافی ان کے ساتھ رابطہ کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اکثرصحافی اس لئے بھی ذہنی دباؤ کا شکار ہوئے تھے کیونکہ وہ روزانہ بار بار ایک موضوع پر رپورٹنگ کررہے تھے اور دوسرے صحافی دوستوں کے ساتھ بھی اگر ملتے تھے تو بھی کورونا وباء کے موضوع پر بحث ہوتی تھی جس کے وجہ سے وہ مسلسل ذہنی دباؤ اور جسمانی تھکاوٹ کا شکار ہو تے تھے۔ ڈاکٹر رحمت اللہ نے ایسی صورتحال میں صحافیوں کو احتیاطی تدابیر پرعمل پیرا ہونے اور ماہر نفسیات کے ساتھ رابطہ میں رہنے کی تاکید کی۔
احسان الله نے کہا کہ ان کے خاندان کی طرف سے بھی انکے اوپر دباؤ تھا کہ رپورٹنگ کو چھوڑدیں کیونکہ انکے والدین ضعیف العمراور بیمار ہیں تو ان کی صحت کا بھی خیال رکھنا تھا۔ روزانہ گھر جانے سے پہلے کپڑے بدلنا اور سینٹائزر وغیرہ کا استعمال بھی کرنا ہوتا تھا کیونکہ ہرجگہ ایک خوف کی فضا قائم تھی، احسان نے بتایا۔
ایسے حالات میں بھی صحافیوں نے اپنا کام جاری رکھا تاکہ لوگوں تک معلومات اور کورونا سے بچاؤ کی احتیاطی تدبیر پہنچتی رہیں۔
رپورٹنگ میں مشکلات
انگریزی اخبار روزنامہ ڈان کے نمائندے انواراللہ خان نے بتایا کہ کورونا وباء کے دوران کام کرنے کی نوعیت ہی الگ تھی۔ ایک طرف فیلڈ میں جا کر خبر بنانی ہوتی تھی تو دوسری طرف لاک ڈاؤن جیسا تجربہ انہوں نے زندگی میں پہلی بار دیکھا تھا۔
آج نیوز کے رپورٹر حنیف اللہ جان نے کہا کہ وہ اوران کے دوسرے صحافی دوست اس طرح کی حالت کے لئے بالکل تیار نہیں تھے کیونکہ کووڈ 19 کے لئے لاک ڈاؤن اور ایس او پیز پر عمل کرنا ایک اچانک صورتحال تھی۔
حنیف الله نے بتایا کہ ایسے حالات میں صحافی گھروں سے کام کرنے لگے تھے۔ انہوں نے کہا کہ باجوڑ میں اکثر گھروں میں انٹرنیٹ کی وہ سہولت دستیاب نہیں ہے جو پریس کلب میں ہے۔ اگرچہ ہم معلومات کے حصول کے لئے تھری جی انٹرنیٹ کے ذریعے واٹس ایپ اور فیس بک استعمال کررہے تھے لیکن جب نیوز پیکج تیار کرتے تھے یا ان پیج سافٹ ویئر میں کوئی خبر کمپوز کرنی ہوتی تھی تو پھراس کوبنانے اوربھیجنے کے لئے کمپیوٹراورتیزانٹرنیٹ کنکشن کی ضرورت ہوتی تھی جوپریس کلب بند ہو جانے کی وجہ سے ہمیں میسر نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس وجہ سےانکے کام پر گہرا اثر پڑا تھا۔

ڈان کے نمائندے انواراللہ نے کہا کہ کورونا وباء کے دوران رپورٹنگ میں ایک مشکل یہ بھی تھی کہ ہسپتال ذرائع سے بروقت رابطہ نہیں ہو پاتا تھا اور جب رابطہ ہوتا تو ان کے پاس اپنے ہسپتال کے علاوہ باجوڑ میں موجود تمام کورونا مریضوں کے بارے میں اعداد و شمار نہیں ہوتے تھے جو ہماری خبروں کے لئے ضروری تھے۔ اسی طرح مقامی انتظامیہ کے فوکل پرسن کی فون کال نہیں ملتی تھی اور اگر مل بھی جاتی تو ان کے پاس بھی پورے ضلع باجوڑ کا ڈیٹا نہیں ملتا تھا جس کی وجہ سے خبر بنانے میں تاخیر ہوتی تھی۔
حنیف الله نے بھی کہا کہ کورونا وائرس کے بارے میں معلومات ہمیں شام پانچ بجے کے بعد ملتی تھی جبکہ خبرکی ڈیڈلائن تب تک گزر چکی ہوتی تھی جس وجہ سے ہم بروقت سٹوری فائل نہیں کر سکتے تھے۔
احسان اللہ جو سوشل میڈیا پر باجوڑ تیز نیوز کے نام سے ایک ویب چینل بھی چلا رہے ہیں کے مطابق ان جیسے ٹی وی رپورٹرز کو پرنٹ رپورٹرز کے مقابلے میں زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ انہیں فیلڈ میں جا کر ویڈیو فوٹیج بنانا ضروری ہوتی تھی اور کورونا وائرس کی وباء کے دوران تو بعض اوقات جائے وقوعہ تک پہنچنا ناممکن ہو گیا تھا۔
احسان اللہ نے بتایا ”ایک طرف ہمارے نیوز چینل ہم سے لائیو بیپر مانگ رہے تھے اور دوسری طرف ہمارا جائے وقوعہ پر جانا اور لوگوں سے بات کرنا آسان نہیں تھا کیونکہ قرنطینہ کی وجہ سے لوگ سماجی فاصلہ اور دوسرے ایس او پیز پر عمل کررہے تھا اور کورونا میں مبتلا مریضوں تک بھی ڈاکٹررسائی نہیں دیتے تھے جبکہ آفیسرز سے بھی بروقت رابطہ اور ان کو لائیو لینا مشکل ہوتا تھا اوراکثران کے فون بند ملتے تھے“۔

احسان اللہ کے مطابق ہمیں اکثر کورونا وباء سے جاں بحق لوگوں کے بارے میں ہسپتال ذرائع سے مستند خبر ملتی تھی کہ فلاں شخص کورونا وباء سے وفات پا چکا ہے لیکن جاں بحق شخص کے خاندان والوں سے فون کالز آتے تھے کہ اس خبرکو نہ چلاؤ کیونکہ اس سے ہماری بد نامی ہوتی ہے اور پھر ہمارے جاں بحق بندے کے جنازے میں کوئی شرکت نہیں کرتا، تو یہ دباؤ بھی ہوتا تھا۔
اس سلسلے میں لاک ڈاؤن کے دوران کورونا سے صحت یاب ہونے والے صحافی یونس کو بھی کئی مشکلات پیش آئی تھیں جن میں صحافیوں کے کورونا وباء سے بچاؤ کے لئے مطلوبہ حفاظتی ساز و سامان کا نہ ہونا، جائے وقوعہ تک پہنچنے کیلئے ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی، بجلی کی بے پناہ لوڈ شیڈنگ اورمتعلقہ سرکاری آفیسرز سے بروقت رابطہ نہ ہونا چند بڑے مسئلے تھے۔
سرکاری ردعمل
ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرہسپتال خار باجوڑ کے میڈیکل سپیشلسٹ اور کورونا آئسولیشن وارڈ کے انچارج اور فوکل پرسن ڈاکٹر فضل الرحمن نے بتایا کہ انہوں نے بھرپور کوشش کی تھی کہ صحافیوں کو بروقت اور مستند معلومات فراہم کریں کیونکہ اس نئی بیماری کے بارے میں لوگوں میں شعور پیدار کرنے میں میڈیا کا ایک اہم کردار تھا اور ہے۔

لیکن ڈاکٹر فضل نے کہا کہ ابتداء میں ہمیں بھی کچھ مشکلات تھیں جس میں کورونا سے بچاؤ کی کٹس، مریضوں کے لئے وینٹیلیٹر کا نہ ہونا وغیرہ شامل ہے لیکن پھران مشکلات پر قابو پالیا گیا تھا۔ ڈاکٹر فضل الرحمن نے مزید بتایا کہ دوپہر 2 بجے تک وہ وارڈ میں ہوتے تھے تو اس وقت تک میڈیا کے نمائندوں کے ساتھ ان کا رابطہ نہیں ہو پاتا تھا۔ اس کے بعد وہ مطلوبہ ڈیٹا اکٹھا کر کے پھراس کو مختلف سرکاری اداروں کے ساتھ شیئر کرتے تھے تو اس وجہ سے معلومات دینے میں کبھی کھبی تاخیر ہوتی تھی لیکن پھر بھی اگرصحافی ہمیں کال کرتے تھے تو ہم ان کو مطلوبہ معلومات دیتے تھے اور اب بھی دے رہے ہیں۔ لیکن کچھ صحافی کورونا کے دوران چاہتے تھے کہ وہ آئسولیشن وارڈ میں کرونا مریضوں سے ملے تو ان کو ہم نے اجازت نہیں دی تاکہ ان کو انفیکشن نہ ہو جائے۔
ضلع باجوڑ انتظامیہ کے کووڈ فوکل پرسن ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر زمین خان نے کہا کہ وہ باجوڑ کے تمام صحافیوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھے اور نہ صرف ان کے ساتھ فون کال پر معلومات شیئر کر تے تھے بلکہ اس کے لئے ایک واٹس ایپ گروپ بھی بنایا تھا اور اس میں لمحہ بہ لمحہ اپ ڈیٹ دیتے تھے۔
زمین خان جو خود کورونا کے باعث 14 دن قرنطینہ میں رہے نے بتایا کہ انہوں نے بذات خود باجوڑ کے ہر علاقے میں لوگوں کو کورونا سے بچاؤ کے بارے میں آگاہی دی تھی اور کرونا مریضوں کا ڈیٹا اکٹھا کرنے کی کوشش کی تھی۔ جو بھی ڈیٹا اان کو ملا تو اس کو باجوڑ کے صحافیوں اور مختلف حکومتی اداروں کے ساتھ شیئر کرتے تھے اوراب بھی کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ باجوڑ میں تمام سرکاری محکموں کے آفیسرز کے لئے انشاء اللہ جلد وہ معلومات تک رسائی کے قانون پر ایک آگاہی سمینار کا انعقاد کرینگے جس پر صحافیوں کو بھی مدعو کرینگے۔ ہر ڈپارٹمنٹ میں فوکل پرسن تعینات کرنے کے لئے بھی کوشش کرینگے تاکہ صحافیوں کو مطلوبہ معلومات بروقت مل سکیں، زمین خان نے بتایا۔ انہوں نے مزید کہا کہ مطلوبہ معلومات انکے سوشل میڈیا پیجز اور واٹس ایپ گروپ پر بھی دستیاب ہیں۔
اگرچہ مقامی انتظامیہ اور ہسپتال کے حکام نے واٹس ایپ گروپ بنایا تھا جس میں وہ معلومات شیئرکرتے تھے جس سے صحافیوں کو آسانی ہوتی تھی۔ لیکن یونس نے کہا کہ زیادہ ترمشکلات سیاسی رہنماؤں سے رابطوں میں پیش آتی تھیں۔ ہم ان سے کسی خبر میں ان کا مؤقف لینا چاہتے تھے لیکن مسلسل کوشش کے باجود بھی ان سے رابطہ نہیں ہو پاتا تھا، یونس نے بتایا. جبکہ ان کے ورکرزاورعام لوگ بھی چاہتے تھے کہ ان کےعلاقےکے رہنماء ان کے سامنے آئیں اور کچھ پیغام دیں لیکن ان رہنماؤں کے موبائل نمبرز اکثر بند آتے تھے۔
خبریں جو شائع نہ ہوئیں
احسان اللہ نے کہا کہ کورونا وائرس وباء کے دوران ان کے چینل کے نیوز روم کے سٹاف میں بھی کمی کی گئی تھی جس سے کبھی رپورٹ بروقت نشر نہیں ہوتی تھی اور انکے ویورز باجوڑ میں انتظار کرتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ کورونا کے بارے میں تو میری خبریں نشر ہوتی تھیں کیونکہ وہ تو ایمرجنسی کی خبریں تھیں لیکن سیاسی اور دیگر سماجی ایشوز جیسا کہ روڈ، پانی کے مسائل پر خبریں نشر نہیں کی گئیں۔
حنیف کے مطابق جب کووڈ 19کے دونوں میں کسی دوسری سٹوری پر کام کرتے تھے تو اس کے لئے مطلوبہ معلومات حاصل کرنا بھی مشکل تھا کیونکہ زیادہ تر دفاتر میں آفیسرز 50 سال سے اوپرعمرکے تھے اور وہ چھٹیوں پر ہوتے تھے کیونکہ کورونا کے خطرے کے پیش نظر انہیں گھر رہنے کا حکم دیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ آر ٹی آئی قانون کے تحت معلومات لینے کے لئے انہوں نےکئی درخواستیں مختلف دفاتر میں جمع کیں لیکن ان کو مطلوبہ معلومات نہیں ملی۔ انہوں نے ذکر کیا کہ ایک درخواست محکمہ تعلیم میں معلومات حاصل کرنے کے لئے دی تھی لیکن اب تک مجھے اس کا جواب نہیں ملا کیونکہ اس وقت پچاس سال سے زائد عمر کا ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر کووڈ 19 کی وجہ سے چھٹیوں پر تھا اور اسی وجہ سے انکی خبر کی ڈیڈلائن ختم ہوگئی جس کی وجہ سے انہیں معاشی نقصان بھی اٹھانا پڑا۔
انوارالله نے کہا کہ اخبارت کے صفحات بھی کم کیے گئے تھے جس کے وجہ سے ہماری دیگر خبریں جو کورونا وباء کے علاوہ تھیں وہ اکثر شائع ہونے سے رہ جاتی تھیں جو ہم نے بڑی محنت سے بنائی ہوتی تھیں اور جس کی وجہ سے ہم کبھی کبھی دل برداشتہ بھی ہو جاتے تھے۔ کیونکہ لوگ ہم سے خبر کے بارے میں پوچھتے تھے۔ انوار نے کہا کہ میں نے ایک سٹوری باجوڑ کے گرڈ سٹیشن کے بارے میں بنائی تھی کہ باجوڑ میں بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔ گرڈ سٹیشن مکمل ہو چکا ہے لیکن کئی ڈیڈلائنز گزر جانے کے باوجود اس کا ابھی تک افتتاح نہیں ہوا اور اس کو فعال نہیں کیا جارہا۔ اس سٹوری پر میں نے بہت محنت کی تھی اور باجوڑ کے لوگ بھی چاہتے تھے کہ اس پر کوئی خبر ڈان اخبار میں لگے تاکہ اس گرڈ سٹیشن کو حکام بالا فعال کریں لیکن وہ سٹوری نہیں چھپی تھی اور لوگ اس بارے میں معلومات سے محروم ہوگئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ اب بھی اس وباء کا خطرہ موجود ہے تو اس کے لئے مکمل منصوبہ بندی کرنی چاہیے تاکہ ہر شعبہ سے وابستہ افراد اپنے کام اچھے طریقے سے سرانجام دیں خصوصی طور پر صحافی کیونکہ صحافی کو ایسے حالات میں فوری اور مستند معلومات درکار ہو تی ہے تاکہ وہ معاشرے میں موجود لوگوں کی صحیح سمت میں رہنمائی کرتے رہیں۔
یونس نے کورونا وباء کے دوران اپنے کام کے بارے میں بتایا کہ انہوں نے عام لوگوں تک صحیح معلومات پہنچانے کے لئے اپنی بھر پور کوشش کی تھی تاکہ لوگوں کو بروقت معلومات دیں سکیں۔ خبر کے تصدیق کے لئے انہوں نے ہراس ادارے سے معلومات کے حصول کے لئے رابطہ کیا جو اس خبرکی تصدیق کے لئے اہم اور ضروری ہوتا تھا۔
لیکن اس دوران عوام کو کورونا کے متعلق بہت سی جھوٹی اورغلط معلومات بھی پہنچ رہی تھیں۔
عوامی معلومات تک رسائی اور کورونا وائرس پر جھوٹی معلومات
صحافیوں نے بتایا کہ پورے صوبے میں ٹرانسپورٹ کے لاک ڈاؤن کی وجہ سے باجوڑ میں اخبارات آنے کا سلسلہ بھی بند ہو گیا تھا تو اس سے ریڈرشپ پر بھی نمایاں اثر پڑا تھا اور عوام معلومات سے بھی کسی حد تک محروم ہوۓ تھے۔
یوتھ آف باجوڑ کے چیئرمین اور سوشل ورکر انجینئر ریحان زیب خان نے بتایا کہ وہ خبروں کے حصول کے لئے سوشل میڈیا اور مختلف نیوز ٹی وی چینلز کے بلیٹن کو بھی وقت دیتے ہیں۔ ریحان زیب نے بتایا کہ کورونا وباء کے دوران جھوٹی اورغلط معلومات بھی بہت زیادہ تھیں جس میں کبھی یہ تمیز کرنا مشکل ہو جاتا تھا کہ یہ خبر سچ ہے کہ جھوٹ۔
انہوں نے کہا کہ ایسے موقعوں پر وہ خود تحقیق کرتے تھے اور اگر انہیں حقائق کا کوئی سراغ ملتا تو وہ سوشل میڈیا پیج یا چینل کو کال کر کے مطلع کر دیتے تھے تاکہ لوگوں میں افراتفری نہ پھیلے۔
