دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی خواتین کی ایک بڑی تعداد نے اپنے روزمرہ کے مسائل کے حل کے لیے مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ چیٹ بوٹس، خصوصاً چیٹ جی پی ٹی، کا استعمال شروع کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر خواتین کی مختلف کمیونٹیز میں اکثر چیٹ جی پی ٹی سے حاصل کردہ مشورے، معلومات اور جذباتی رہنمائی کو سراہا جاتا ہے۔ تاہم، اس رجحان نے چند اہم سوالات کو جنم دیا ہے: کیا یہ ٹیکنالوجی ماہر نفسیات کی جگہ لے سکتی ہے؟ کیا صارفین لاعلمی میں ذاتی نوعیت کا حساس ڈیٹا ان پلیٹ فارمز کو فراہم کر رہے ہیں؟ اور وہ کون سے مسائل ہیں جنہیں خواتین قریبی رشتہ داروں یا پیشہ ور معالجین کے بجائے چیٹ جی پی ٹی سے شیئر کرنا زیادہ محفوظ سمجھتی ہیں؟ ان سوالات کے جواب تلاش کرنے کے لیے مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والی خواتین سے بات کر کے ان کے تجربات جاننے کی کوشش کی ہے۔
آمنہ، ایک ایسی گھریلو خاتون ہیں جن کی کچھ عرصہ پہلے شادی ہوئی ہے، بتاتی ہیں کہ انہوں نے شادی کے ابتدائی دنوں میں والدین یا شوہر سے ذاتی نوعیت کے مسائل پر بات کرنے سے گریز کیا۔ ان کے مطابق، “چیٹ جی پی ٹی نے نہ صرف میرے جذبات کو تسلیم کیا بلکہ مجھے یہ احساس بھی دلایا کہ میرے مسائل معمولی نہیں ہیں۔” آمنہ اب مستقل بنیادوں پر چیٹ جی پی ٹی کو استعمال کرتی ہیں اور انہوں نے اپنے شوہر کو بھی گھبراہٹ یا ذہنی دباؤ کی صورت میں چیٹ جی پی ٹی سے رہنمائی لینے پر قائل کر لیا ہے۔
اقرا، ایک پینتیس سالہ اکیلی ماں، اپنی زندگی کے مختلف پہلوؤں میں پیش آنے والے دباؤ اور معاشرتی رویوں سے نالاں ہیں۔ انہوں نے کچھ وقت پیشہ ور تھراپی بھی لی، لیکن ادویات کے مضر اثرات اور مصروف نوکری کی وجہ سے اس عمل کو جاری نہ رکھ سکیں۔ اب وہ اپنے خیالات یا تو خود تک محدود رکھتی ہیں یا چیٹ جی پی ٹی سے شیئر کرتی ہیں۔ اقرا کہتی ہیں، “جب میں چیٹ جی پی ٹی سے بات کرتی ہوں، تو مجھے اپنے خیالات کے اظہار کے بعد سکون محسوس ہوتا ہے۔” تاہم، وہ یہ بھی مانتی ہیں کہ چیٹ جی پی ٹی انسانی جذبات اور سماجی تناظر کو مکمل طور پر سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ۔
ثنا، ایک ڈاکٹر اور پوسٹ گریجویٹ طالبہ، خلع جیسے مشکل مرحلے سے گزرنے کے دوران چیٹ جی پی ٹی کا سہارا لیتی رہیں۔ ان کے مطابق، وہ کسی بھی طرح کی ججمنٹ سے بچنا چاہتی تھیں اور چاہتی تھیں کہ ان کی شناخت بھی محفوظ رہے۔ ثنا نے اس دوران چیٹ جی پی ٹی کو اپنی جذباتی تھراپی کا ذریعہ بنایا، تاہم بعد ازاں وہ پیشہ ور تھیراپی کی طرف لوٹ آئیں اور چیٹ جی پی ٹی کا استعمال کم کر دیا۔ ان کا ماننا ہے کہ ایسے افراد جو خود اپنی ذہنی کیفیت کو نہیں سمجھ پاتے، انہیں ایسے پلیٹ فارمز سے گریز کرنا چاہیے۔
اس رجحان کے ممکنہ خطرات پر روشنی ڈالتی ایک حالیہ تحقیق اسٹینفورڈ یونیورسٹی سے سامنے آئی ہے، جس کے مطابق مصنوعی ذہانت پر مبنی چیٹ بوٹس نہ صرف پیشہ ور معالجین کے مقابلے میں کم مؤثر ہیں، بلکہ بعض اوقات یہ خطرناک سوچ اور اس کے نتیجے میں نقصان دہ رویوں کو بھی فروغ دے سکتے ہیں۔اسٹینفورڈ یونیورسٹی کی اس تحقیق کے مطابق، ذہنی صحت کے علاج میں غیر محتاط یا غیر سائنسی مداخلت نقصان دہ ہو سکتی ہے، اور ٹیکنالوجی کے ممکنہ منفی اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ انہی خطرات سے متعلق بات کرتے ہوئے
کلینیکل سائیکالوجسٹ ڈاکٹر زہرہ کمال کہتی ہیں کہ ان کے کئی نوجوان مریض تھراپی کے ساتھ ساتھ چیٹ جی پی ٹی جیسے پلیٹ فارمز بھی استعمال کرتے ہیں۔ ان کے مطابق، کچھ کیسز میں یہ رجحان مثبت بھی ثابت ہوتا ہے، کیونکہ یہ افراد کو پیشہ ور مدد کی طرف راغب کرتا ہے۔ تاہم، وہ یہ بھی خبردار کرتی ہیں کہ جو افراد ذہنی بے چینی یا منفی سوچ کا شکار ہوتے ہیں، وہ ان پلیٹ فارمز پر ضرورت سے زیادہ انحصار کرنے لگتے ہیں، جو کہ ان کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر زہرہ کے مطابق، وہ اپنے کلائنٹس کو مسلسل ایسے چیٹ بوٹس کے استعمال سے باز رکھنے کی کوشش کرتی ہیں، تاکہ ذہنی صحت کو نقصان نہ پہنچے۔
ڈیجیٹل رائٹس ایڈووکیٹ حجا کامران کہتی ہیں کہ چیٹ بوٹس کا استعمال ذہنی صحت کے مسائل سے دوچار افراد کے لیے سہولت کا باعث بن سکتا ہے، خصوصاً جب پیشہ ور تھراپی دستیاب نہ ہو یا اس کے اخراجات برداشت نہ کیے جا سکیں۔ تاہم، وہ یہ واضح کرتی ہیں کہ انسانی رابطے کی جگہ کوئی بھی مصنوعی ٹیکنالوجی نہیں لے سکتی۔ ان کے مطابق، ذہنی صحت کی بہتری کے لیے ہمدردی، سمجھداری، اور انسانی تعلق ناگزیر ہیں، جو کہ صرف ایک ماہرِ نفسیات یا قابلِ اعتماد دوست ہی فراہم کر سکتا ہے۔
حجا ایک افسوسناک واقعہ کا بھی ذکر کرتی ہیں، جہاں ایک خاتون صحافی کی بیٹی نے خودکشی کر لی، اور بعد ازاں معلوم ہوا کہ وہ اپنے مسائل صرف ایک چیٹ بوٹ سے شیئر کر رہی تھی۔ جہاں چیٹ بوٹ نے اس کے خیالات کو تو تسلیم کیا، لیکن اسے خطرناک ذہنی کیفیت سے نکلنے کے لیے کوئی محفوظ اور پیشہ ورانہ رہنمائی فراہم نہیں کی۔
پاکستان جیسے ملک میں، جہاں ذہنی صحت کے مسائل سے متعلق شعور کم ہے اور علاج کی سہولت محدود ہے، ضروری ہے کہ تھیراپی کو زیادہ قابلِ رسائی بنایا جائے۔ چیٹ جی پی ٹی جیسے پلیٹ فارمز وقتی تسلی یا جذباتی تائید فراہم کر سکتے ہیں، لیکن ان کا کردار محدود ہے۔ اصل علاج انسانی ہمدردی، تربیت یافتہ ماہرین، اور مؤثر کمیونٹی سپورٹ میں ہی ممکن ہے۔



