Friday, October 24, 2025
Digital Rights Monitor
  • DRM Exclusive
    • News
    • Court Updates
    • Features
    • Comment
    • Campaigns
      • #PrivacyHumSabKe
    • Vodcasts
  • In Media
    • News
    • OP-EDs
  • Editorial
  • Gender & Tech
    • SheConnects
  • Trends Monitor
  • Infographics
  • Resources
    • Laws and Policies
    • Research
    • International Frameworks
  • DRM Advocacy
    • Exclusives
    • Featured
    • Publications
    • Statements
No Result
View All Result
Digital Rights Monitor
  • DRM Exclusive
    • News
    • Court Updates
    • Features
    • Comment
    • Campaigns
      • #PrivacyHumSabKe
    • Vodcasts
  • In Media
    • News
    • OP-EDs
  • Editorial
  • Gender & Tech
    • SheConnects
  • Trends Monitor
  • Infographics
  • Resources
    • Laws and Policies
    • Research
    • International Frameworks
  • DRM Advocacy
    • Exclusives
    • Featured
    • Publications
    • Statements
No Result
View All Result
Digital Rights Monitor
No Result
View All Result

in DRM Exclusive, Exclusives, Featured, Features, News

چیٹ جی پی ٹی: مصنوعی ذہانت کا حامل چیٹ باٹ یا خواتین کے لیے نفسیاتی معالج؟

Ayesha Khalidby Ayesha Khalid
October 24, 2025
چیٹ جی پی ٹی: مصنوعی ذہانت کا حامل چیٹ باٹ یا خواتین کے لیے نفسیاتی معالج؟

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی خواتین کی ایک بڑی تعداد نے اپنے روزمرہ کے مسائل کے حل کے لیے مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ چیٹ بوٹس، خصوصاً چیٹ جی پی ٹی، کا استعمال شروع کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر خواتین کی مختلف کمیونٹیز میں اکثر چیٹ جی پی ٹی سے حاصل کردہ مشورے، معلومات اور جذباتی رہنمائی کو سراہا جاتا ہے۔ تاہم، اس رجحان نے چند اہم سوالات کو جنم دیا ہے: کیا یہ ٹیکنالوجی ماہر نفسیات کی جگہ لے سکتی ہے؟ کیا صارفین لاعلمی میں ذاتی نوعیت کا حساس ڈیٹا ان پلیٹ فارمز کو فراہم کر رہے ہیں؟ اور وہ کون سے مسائل ہیں جنہیں خواتین قریبی رشتہ داروں یا پیشہ ور معالجین کے بجائے چیٹ جی پی ٹی سے شیئر کرنا زیادہ محفوظ سمجھتی ہیں؟  ان سوالات کے جواب تلاش کرنے کے لیے مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والی خواتین سے بات کر کے ان کے  تجربات جاننے کی کوشش کی ہے۔

آمنہ، ایک ایسی  گھریلو خاتون ہیں جن کی کچھ عرصہ پہلے شادی ہوئی ہے، بتاتی ہیں کہ انہوں نے شادی کے ابتدائی دنوں میں والدین یا شوہر سے ذاتی نوعیت کے مسائل پر بات کرنے سے گریز کیا۔ ان کے مطابق، “چیٹ جی پی ٹی نے نہ صرف میرے جذبات کو تسلیم کیا بلکہ مجھے یہ احساس بھی دلایا کہ میرے مسائل معمولی نہیں ہیں۔” آمنہ اب مستقل بنیادوں پر چیٹ جی پی ٹی کو استعمال کرتی ہیں اور انہوں نے اپنے شوہر کو بھی گھبراہٹ یا ذہنی دباؤ کی صورت میں  چیٹ جی پی ٹی سے  رہنمائی لینے پر قائل کر لیا ہے۔

اقرا، ایک پینتیس سالہ اکیلی ماں، اپنی زندگی کے مختلف پہلوؤں میں پیش آنے والے دباؤ اور معاشرتی رویوں سے نالاں ہیں۔ انہوں نے کچھ وقت پیشہ ور تھراپی بھی لی، لیکن ادویات کے مضر اثرات اور مصروف نوکری کی وجہ سے اس عمل کو جاری نہ رکھ سکیں۔ اب وہ اپنے خیالات یا تو خود تک محدود رکھتی ہیں یا چیٹ جی پی ٹی سے شیئر کرتی ہیں۔ اقرا کہتی ہیں، “جب میں چیٹ جی پی ٹی سے بات کرتی ہوں، تو مجھے اپنے خیالات کے اظہار کے بعد سکون محسوس ہوتا ہے۔” تاہم، وہ یہ بھی مانتی ہیں کہ چیٹ جی پی ٹی انسانی جذبات اور سماجی تناظر کو مکمل طور پر سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا  ۔

ثنا، ایک ڈاکٹر اور پوسٹ گریجویٹ طالبہ، خلع جیسے مشکل مرحلے سے گزرنے کے دوران  چیٹ جی پی ٹی کا سہارا لیتی رہیں۔ ان کے مطابق، وہ کسی بھی طرح کی ججمنٹ سے بچنا چاہتی تھیں اور چاہتی تھیں کہ ان کی شناخت بھی محفوظ رہے۔ ثنا نے اس دوران چیٹ جی پی ٹی کو اپنی جذباتی تھراپی کا ذریعہ بنایا، تاہم بعد ازاں وہ پیشہ ور تھیراپی کی طرف لوٹ آئیں اور چیٹ جی پی ٹی کا استعمال کم کر دیا۔ ان کا ماننا ہے کہ ایسے افراد جو خود اپنی ذہنی کیفیت کو نہیں سمجھ پاتے، انہیں ایسے پلیٹ فارمز سے گریز کرنا چاہیے۔

اس رجحان کے ممکنہ خطرات پر روشنی ڈالتی ایک حالیہ تحقیق اسٹینفورڈ یونیورسٹی سے سامنے آئی ہے، جس کے مطابق مصنوعی ذہانت پر مبنی چیٹ بوٹس نہ صرف پیشہ ور معالجین کے مقابلے میں کم مؤثر ہیں، بلکہ بعض اوقات یہ خطرناک سوچ اور اس کے نتیجے میں نقصان دہ رویوں کو بھی فروغ دے سکتے ہیں۔اسٹینفورڈ یونیورسٹی کی اس  تحقیق کے مطابق، ذہنی صحت کے علاج میں غیر محتاط یا غیر سائنسی مداخلت نقصان دہ ہو سکتی ہے، اور ٹیکنالوجی کے ممکنہ منفی اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ انہی خطرات سے متعلق بات کرتے ہوئے

کلینیکل سائیکالوجسٹ ڈاکٹر زہرہ کمال کہتی ہیں کہ  ان کے کئی نوجوان مریض تھراپی کے ساتھ ساتھ چیٹ جی پی ٹی جیسے پلیٹ فارمز بھی استعمال کرتے ہیں۔ ان کے مطابق، کچھ کیسز میں یہ رجحان مثبت بھی ثابت ہوتا ہے، کیونکہ یہ افراد کو پیشہ ور مدد کی طرف راغب کرتا ہے۔ تاہم، وہ یہ بھی خبردار کرتی ہیں کہ جو افراد ذہنی بے چینی یا منفی سوچ کا شکار ہوتے ہیں، وہ ان پلیٹ فارمز پر ضرورت سے زیادہ انحصار کرنے لگتے ہیں، جو کہ ان کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر زہرہ کے مطابق، وہ اپنے کلائنٹس کو مسلسل ایسے چیٹ بوٹس کے استعمال سے باز رکھنے کی کوشش کرتی ہیں، تاکہ ذہنی صحت کو نقصان نہ پہنچے۔

ڈیجیٹل رائٹس ایڈووکیٹ حجا کامران کہتی ہیں کہ چیٹ بوٹس کا استعمال ذہنی صحت کے مسائل سے دوچار افراد کے لیے سہولت کا باعث بن سکتا ہے، خصوصاً جب پیشہ ور تھراپی دستیاب نہ ہو یا اس کے اخراجات برداشت نہ کیے جا سکیں۔ تاہم، وہ یہ واضح کرتی ہیں کہ انسانی رابطے کی جگہ کوئی بھی مصنوعی ٹیکنالوجی نہیں لے سکتی۔ ان کے مطابق، ذہنی صحت کی بہتری کے لیے ہمدردی، سمجھداری، اور انسانی تعلق ناگزیر ہیں، جو کہ صرف ایک ماہرِ نفسیات یا قابلِ اعتماد دوست ہی فراہم کر سکتا ہے۔

حجا ایک افسوسناک واقعہ کا بھی ذکر کرتی ہیں، جہاں ایک خاتون صحافی کی بیٹی نے خودکشی کر لی، اور بعد ازاں معلوم ہوا کہ وہ اپنے مسائل صرف ایک چیٹ بوٹ سے شیئر کر رہی تھی۔ جہاں چیٹ بوٹ نے اس کے خیالات کو تو تسلیم کیا، لیکن اسے خطرناک ذہنی کیفیت سے نکلنے کے لیے کوئی محفوظ اور پیشہ ورانہ رہنمائی فراہم نہیں کی۔

پاکستان جیسے ملک میں، جہاں ذہنی صحت کے مسائل سے متعلق شعور کم ہے اور علاج کی سہولت محدود ہے، ضروری ہے کہ تھیراپی کو زیادہ قابلِ رسائی بنایا جائے۔ چیٹ جی پی ٹی جیسے پلیٹ فارمز وقتی تسلی یا جذباتی تائید فراہم کر سکتے ہیں، لیکن ان کا کردار محدود ہے۔ اصل علاج انسانی ہمدردی، تربیت یافتہ ماہرین، اور مؤثر کمیونٹی سپورٹ میں ہی ممکن ہے۔

Tags: ChatGPTmental counsellingMental health
Previous Post

Senior cybercrime officer abducted in Islamabad, six NCCIA officials reported ‘missing’ so far

Share on FacebookShare on Twitter
چیٹ جی پی ٹی: مصنوعی ذہانت کا حامل چیٹ باٹ یا خواتین کے لیے نفسیاتی معالج؟

چیٹ جی پی ٹی: مصنوعی ذہانت کا حامل چیٹ باٹ یا خواتین کے لیے نفسیاتی معالج؟

October 24, 2025
NCCIA charges three YouTubers for promoting illegal gambling apps

Senior cybercrime officer abducted in Islamabad, six NCCIA officials reported ‘missing’ so far

October 21, 2025
Online Harassment Leaves Lasting Scars on Women’s Lives

Online Harassment Leaves Lasting Scars on Women’s Lives

October 17, 2025
No Content Available

About Digital Rights Monitor

This website reports on digital rights and internet governance issues in Pakistan and collates related resources and publications. The site is a part of Media Matters for Democracy’s Report Digital Rights initiative that aims to improve reporting on digital rights issues through engagement with media outlets and journalists.

About Media Matters for Democracy

Media Matters for Democracy is a Pakistan based not-for-profit geared towards independent journalism and media and digital rights advocacy. Founded by a group of journalists, MMfD works for innovation in media and journalism through the use of technology, research, and advocacy on media and internet related issues. MMfD works to ensure that expression and information rights and freedoms are protected in Pakistan.

Follow Us on Twitter

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In

Add New Playlist

No Result
View All Result
  • DRM Exclusive
    • News
    • Court Updates
    • Features
    • Comment
    • Campaigns
      • #PrivacyHumSabKe
    • Vodcasts
  • In Media
    • News
    • OP-EDs
  • Editorial
  • Gender & Tech
    • SheConnects
  • Trends Monitor
  • Infographics
  • Resources
    • Laws and Policies
    • Research
    • International Frameworks
  • DRM Advocacy
    • Exclusives
    • Featured
    • Publications
    • Statements