وفاقی حکومت نے آن لائن تعلیمی نظام کو مزیدمستحکم کرتے ہوئے پرائمری سے لیکر یونیورسٹی تک اب آن لائن سسٹم کی اجازت دیدی ہے۔ ہر سکول اور یونیورسٹی میں آن لائن نظام کو ہی بہتر سمجھا جا رہا ہے اور مثال کیلئے یورپ اور امریکہ کی مثالیں دی جا رہی ہیں۔ ایک جانب جہاں آن لائن نظام جدید اور تکنیکی اعتبار سے ہمیں مزین کررہا ہے، وہیں یہ نظام اپنے ساتھ کئی مسائل بھی لے کر آیا ہے۔ خیبر پختونخوا کی سب سے بڑی یونیورسٹی جامعہ پشاور کے شعبہ انگریزی کے لیکچرار عارف خان کے مطابق آن لائن نظام بہترین ہے لیکن کیا ہم اس بہترین نظام کیلئے تیار ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ کورونا کی پہلی لہر کے دوران اساتذہ، طلبہ اور انتظامیہ تمام ہی تیار نہیں تھے لیکن ہم نے پہلی لہر کے بعد صورتحال سنبھلتے ہی کوئی کوشش بھی نہیں کی کہ اگر حالات دوبارہ خراب ہوئے تو کیا کریں گے؟ عارف خان نے بتایا کہ تین بنیادی نقاط ہیں جن پر عمل کرنے کی ضرورت ہے، “سب سے پہلے ہر تعلیمی ادارے کی انتظامیہ کو چاہئے کہ وہ اپنے اساتذہ کی ضرورت کو جانچنے کیلئے ایک سروے کریں۔ انہیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ان کا معلم کس حد تک تکنیکی اعتبار سے لیس ہے اور اس کے پاس کون کون سے تکنیکی آلات موجود ہیں۔ اسی طرح انٹرنیٹ کی سہولت خیبر پختونخوا میں بڑا مسئلہ ہے۔ تمام قبائلی اضلاع کے بچوں کو تو آن لائن کلاسز سے نکال ہی لیں کیونکہ وہاں انٹرنیٹ کی سہولت انتہائی محدود سطح پر ہے۔ ان بچوں کیلئے کوئی راستہ تلاش کیاجائے تاکہ وہ بھی قومی دھارے میں شامل ہو سکیں اور تیسرا سب سے اہم کہ طلبہ سے بھی رائے لی جائے کہ وہ آن لائن نظام سے کس حد تک مطمئن ہیں اور اس کی بہتری کیلئے کیا تجاویز رکھتے ہیں؟”
خیبر پختونخوا کی جامعات نے آن لائن نظام کو بھی الگ الگ انداز سے متعارف کرایا ہے اور سب سے مختلف انداز اس وقت کوہاٹ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا ہے۔ یونیورسٹی کے اساتذہ کی تنظیم کاسا(کوہاٹ یونیورسٹی اکڈیمک سٹاف ایسوسی ایشن) کے صدراسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر فرمان اللہ کے مطابق اساتذہ اپنا لیکچر ریکارڈ کر کے آن لائن یونیورسٹی پورٹل میں ڈال دیتے ہیں جس کے بعد طلباءو طالبات اس کو دیکھتے ہیں اور انتظامیہ کی جانب سے یہ ہدایات دی گئی ہیں کہ آن لائن پڑھاتے ہوئے صرف انگریزی زبان استعمال کی جائے۔ ڈاکٹر فرمان اللہ کے مطابق کوہاٹ یونیورسٹی میں آنے والے طلباءو طالبات دور دراز علاقوں سے ہیں، ان میں بیشتر کو اردو بھی درست طریقے سے سمجھ نہیں آتی۔ ایسے میں اردو اور پشتو کو مکمل طور پر نظر انداز کر کے صرف انگریزی میں آن لائن لیکچر ریکارڈ کرنا وقت کا ضیاع ہے۔ اس سے نہ تو بچوں کو فائدہ ہو رہا ہے اور نہ ہی اساتذہ درست انداز میں پڑھا سکتے ہیں۔ ڈاکٹر فرمان اللہ نے چند ہفتے قبل کوہاٹ یونیورسٹی کے طلبہ کے احتجاج کا حوالہ دیتے وئے بتایا کہ بچوں کا سب سے بڑا اعتراض ہی یہی تھا کہ ویڈیو ریکارڈ کرکے ہمیں دے دینے سے ہمیں کچھ سمجھ نہیں آرہی، نہ تو ہم سوال کرسکتے ہیں اور نہ ہی ہم اساتذہ سے ایک بات کو مزید وضاحت کیلئے درخواست کرسکتے ہیں۔ ڈاکٹر فرمان کے مطابق جب تک استاد اور شاگرد کا تعلق دو طرفہ نہیں ہوگا تب تک یہ نظام فائدہ نہیں دے سکتا۔
خیبر پختونخوا میں اس وقت 42جامعات ہیں جن میں 29سرکاری جبکہ 13نجی ہیں۔ سرکاری جامعات کے کیپمس اس کے علاوہ ہیں، صوبائی حکومت کی جانب سے یونیورسٹی انتظامیہ کو آن لائن طرز تعلیم اختیار کرنے کیلئے مکمل طور پر خودمختاری دی گئی ہے جس کے باعث جامعات نے ان پر کافی حد تک کوشش بھی کی ہے تاہم اب بھی تکنیکی اعتبار سے کئی مسائل موجود ہیں۔آن لائن طرز تعلیم میں سب سے زیادہ مسئلہ ان اساتذہ کو ہو رہا ہے جن کے مضامین پریکٹیکل ہیں اور وہ ہزار کوشش کر کے بھی آن لائن طریقہ کار سے بچوں کو نہیں سمجھا سکتے ۔
صوابی کی وومن یونیورسٹی میں شعبہ ابلاغ عامہ کی لیکچرار نیلم ظاہر کے مطابق بچوں کو خبر بنانے سے لیکر کیمرے کا استعمال اور ریڈیو کی براڈ کاسٹنگ آن لائن نہیں سمجھائی جا سکتی۔ الیکٹرانک میڈیا کام کیسے کرتا ہے اور خبر بناتے ہوئے بچوں نے کہاں کونسی غلطی کردی اس کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ اس کی درستگی تب ہی ممکن ہے جب ہم وہاں موجود ہوں اور اسی لئے تکنیکی مضامین کیلئے آن لائن طرز نظام بالکل بھی قابل قبول نہیں ہے۔ نیلم ظاہر کے مطابق آن لائن تعلیم دینے کیلئے اساتذہ کی کوئی تربیت بھی نہیں کی گئی جس کی وجہ سے مسائل مزید بڑھ رہے ہیں اور عمومی طور پر بچوں کو آن لائن کلاس میں یہی بتایا جاتا ہے کہ جب حالات بہتر ہوجائیں گے تو آپ کو یہ سب دوبارہ سکھا دیا جائیگا۔ ان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی کے آئی ٹی سٹاف نے ایک وٹس ایپ گروپ بنا دیا ہے جس میں ہم اپنی مشکلات بتا دیتے ہیں، جس کے جواب میں وہ ہدایات دیتے ہیں تاہم وہ کارگر ثابت نہیں ہو رہیں۔
اساتذہ اور بچوں کے آن لائن نظام میں مسلسل گیجٹ کے استعمال سے نفسیاتی مسائل پیدا ہونے کا بھی خدشہ بڑھ گیا ہے۔ ماہر نفسیات انیلہ عتیق کے مطابق طلباءو طالبات اور اساتذہ کا مسلسل کئی گھنٹوں تک ایک ہی کمپیوٹر سکرین کو دیکھنا ان کیلئے نفسیاتی طور پر انتہائی خطرناک ہے اور ان کو اب مسلسل تھراپی کی ضرورت ہے۔ نفسیاتی مسائل سے متعلق نیلم ظاہر بتاتی ہیں کہ آن لائن کلاسز اب ایک مسئلہ محسوس ہونے لگ گیا ہے۔ آن لائن طالبات کو سکھانا ممکن نہیں ہے اور کلاس نہ لینا انتظامیہ کی جانب سے قابل برداشت نہیں ہے جس کی وجہ سے نفسیاتی طور پر شدید دبائو بڑھ گیا ہے۔ اسی طرح مسلسل لیپ ٹاپ اور موبائل فون کے ذریعے کلاس لینے کی وجہ سے بھی مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔ نظر کے مسائل کے ساتھ ساتھ سر درد اور جسمانی طور پر کئی تکالیف کا سامنا کرنا پڑرہا ہے لیکن انتظامیہ کی واضح ہدایات ہیں کہ کلاس ایک بھی نہیں چھوڑ سکتے۔انیلہ عتیق کےمطابق اساتذہ اور طلبہ کے گھروں میں برتاﺅ میں بڑی حد تک تبدیلی محسوس کی جا رہی ہے جو دراصل ان آن لائن کلاسز کے بڑھ جانے کی وجہ سے ہے۔ یونیورسٹی میں طلبہ اور اساتذہ کو ایک خاص ماحول دستیاب ہوتا ہے جس میں وہ سیکھنے اور سکھانے کے عمل سے گزرتے ہیں لیکن گھر میں بیٹھ کر گھریلو مسائل کے ساتھ آن لائن کلاس پر توجہ مرکوز کرنا انتہائی مشکل عمل ہے جس کی وجہ سے ہماری نفسیات پر گہرا اثر پڑتا ہے۔
خوشحال خان خٹک یونیورسٹی کرک کی پروفیسر کومل رحمن کے مطابق ان کیلئے گھر کے ساتھ آن لائن کلاسز جاری رکھنا کسی مسئلے سے کم نہیں ہے۔ ان کے دو بیٹے ہیں جن کی آن لائن کلاسز لینے کی زمہ داری بھی ان پر ہے جبکہ انکی بطور استاد اپنی کلاسز کا شیڈول بھی انتہائی مشکل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک مشترکہ فیملی سسٹم میں ہونے کی وجہ سے گھر کو بھی پورا وقت دینا پڑ رہا ہے جو نفسیاتی طور پر انہیں الجھائے ہوئے ہیں۔ کومل بتاتی ہیں کہ آن لائن کلاسز کی وجہ سے نہ تو وہ خود بہتر طریقے سے پڑھا سک رہی ہیں اور نہ ہی انکے بچے آن لائن کلاسز سے کچھ بہتر سیکھ رہے ہیں جبکہ گھریلو زندگی میں بھی ایک خلاء پیدا ہو گیا ہے جو مستقبل میں مزید گہرا ہو سکتا ہے۔
ماہر تعلیم عمران ٹکر کے مطابق آن لائن کلاس میں سب سے بڑا سوال معیار کا ہے۔ بچے گھر سے بستر میں لیٹ کر آن لائن آجاتے ہیں یا پھر کہیں سفر کرتے ہوئے بھی آن لائن آجاتے ہیں لیکن انکی توجہ سیکھنے کیلئے نہیں ہوتی۔ اسی طرح اگر دیکھا جائے تو اساتذہ کا بھی یہی طریقہ ہے کہ وہ گھر میں کئی مسائل میں الجھے ہوئے ہوتے ہیں، وہ دوستوں کی محفل میں بھی بیٹھ کر آن لائن آجاتے ہیں جس کی وجہ سے طلباء اور اساتذہ دونوں کی توجہ سیکھنے سکھانے کی جانب مرکوز نہیں رہتی جس کے باعث حاضری تو دونوں کی لگ جاتی ہے لیکن بھگتنا معیار کو پڑتا ہے۔
کاسا کے صدر ڈاکٹر فرمان اللہ کے مطابق کوہاٹ یونیورسٹی کی جانب سے ایک آن لائن اکڈیمک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے جس کو اساتذہ کے تحفظات اور مسائل کے حل کیلئے سفارشات پیش کی گئی ہیں، لیکن یونیورسٹی انتظامیہ نے اس پر عمل درآمد کرنے کی کوشش تک نہیں کی۔ انہوں نے بتایا کہ اساتذہ کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ بچوں کو مطمئن کرے اور اسی کیلئے وہ سفارشات سامنے لے کر آئے تاہم انتظامیہ اگر اساتذہ کو اپنے ساتھ ایک پیج پر نہیں سمجھے گی تو مسائل کم ہونے کی بجائے مزید بڑھیں گے۔ کوہاٹ یونیورسٹی کے ترجمان ذیشان بنگش کے مطابق یونیورسٹی نے جو طریقہ کار اپنایا وہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی ہدایات کے مطابت ہے اس وقت کوہاٹ یونیورسٹی صوبے کی پہلی یونیورسٹی ہے جس نے 2015 میں اپنا کیمپس مینجمنٹ سلوشن سسٹم متعارف کرایا ہے، اور جب کورونا کا مسئلہ سامنے آیا تو کوہاٹ یونیورسٹی وہ واحد جامعہ تھی جس کے پاس آن لائن سسٹم موجود تھا۔ کوہاٹ یونیورسٹی پہلے سے ہی آن لائن پیپرز جمع کرانے سمیت کلاسز اپ ڈیٹ کرنے اور نتئاج آن لائن فراہم کرنے کے قابل تھی، اور جب کورونا لاک ڈائون آیا تو اساتذہ کو یہ ہدایت کی گئی کہ وہ پاور پوائنٹ سلائڈز کے ساتھ آواز بھی شامل کریں جسے ایک کمیٹی کی نگرانی میں پرکھنے کے بعد یوٹیوب پر ڈالا گیا۔ ذیشان بنگش نے بتایا کہ انگریزی زبان کا انتخاب اس لئے کیا گیا تاکہ اس ویڈیو کو صرف کوہاٹ یونیورسٹی نہیں بلکہ دنیا بھر کے طلباء و طالبات کیلئے مفید بنایا جا سکے جبکہ اساتذہ کو مقامی زبان میں ایک سمری بھی اپ لوڈ کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔
اساتذہ کی تربیت کے حوالے سے پشاور کی تاریخی اسلامیہ کالج یونیورسٹی اور زرعی یونیورسٹی نے سب سے زیادہ تربیتی سیشن منعقد کئے ہیں۔ زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر جہاں بخت کے پاس اس وقت اسلامیہ کالج یونیورسٹی کا اضافی چارج ہے۔ ان کے مطابق جب کورونا کا مسئلہ سامنے آیا تو اسی وقت تمام اساتذہ کی تربیت شروع کردی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ جب حالات بہتر ہوئے تو کیمپس کے اندر بھی تمام اساتذہ کو طلب کیا گیا اور ان کو وہیں تربیت فراہم کی گئی۔ تربیت کا یہ عملہ اب مسلسل جاری رہے گا اور ایک ایسا نظام مرتب کردیا گیا ہے جس سے نہ صرف اساتذہ کو فائدہ پہنچ رہا ہے بلکہ مستقبل کیلئے بھی تیاری کی جا رہی ہے۔
Featured Image by Glenn Carstens-Peters on Unsplash