پچیس سالہ افغان نژاد خواجہ سرا کاشف عرف پیپسی ایچ آئی وی ایڈز اور اس سے جڑی سماجی نفرت انگیزی کے باعث کچھ روز قبل انتقال کر گئی۔ پیپسی خیبر پختونخوا کے ضلع ملاکنڈ کے بٹ خیلہ میں رہائش پذیر تھی اور اپنی خوبصورتی، خوش اخلاقی اور رقص کے فن کی وجہ سے برادری میں مشہور تھی۔ وہ مختلف تقریبات میں ناچ گانے کے پروگراموں میں شرکت کر کے گزر بسر کرتی تھی۔ اُن کے گورو اور صوبائی خواجہ سرا برادری کے صدر آرزو خان کے مطابق، پیپسی ہمیشہ ہنستی مسکراتی نظر آتی تھی مگر کچھ عرصے سے مسلسل کمزور اور بیمار رہنے لگی تھی۔ جب آرزو نے وجہ پوچھی تو پیپسی نے کہا، مجھے خود نہیں معلوم، باقی سب بھی یہی کہتے ہیں۔ بعدازاں لیڈی ریڈنگ اسپتال پشاور میں ٹیسٹ سے معلوم ہوا کہ وہ ایچ آئی وی ایڈز میں مبتلا ہے۔
پیپسی کو اسپتال کے ایڈز سینٹر میں رجسٹر کر کے علاج شروع کیا گیا تھا، لیکن دو سال بعد اس نے دوا لینا بند کر دیا اور اسپتال کی متعدد کوششوں کے باوجود واپس نہ آئی۔ اسی دوران علاقے میں اس کے خلاف سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مہم شروع ہو گئی، جس میں اس کی تصاویر اور ذاتی معلومات کے ساتھ یہ الزام لگایا گیا کہ وہ عوام کے لیے خطرہ ہے۔ اس مہم کے بعد انتظامیہ نے کارروائی کرتے ہوئے اسسٹنٹ کمشنر کے حکم پر اس کی رہائش گاہ سیل کر دی اور اسے بٹ خیلہ سے علاقہ بدر کر دیا۔
دستاویزات کے مطابق، 29 نومبر 2023 کو ایک مقامی فیس بک پیج پر خبر شائع ہوئی کہ “بٹ خیلہ بازار میں ایک خواجہ سرا میں ایڈز کا انکشاف ہوا ہے۔ اس فیسبک پیج کے منتظم نے بعد میں تسلیم کیا کہ یہ معلومات اسے ایک سرکاری اسپتال کے ملازم نے فراہم کی تھیں۔ انتظامیہ نے سوشل میڈیا کے دباؤ میں آ کر پیپسی کو علاقہ بدر کر دیا۔ آرزو خان کے مطابق، جب وہ ایس ایچ او سے ملی اور سمجھانے کی کوشش کی کہ بیماری کی بنیاد پر بے دخلی غیر انسانی ہے، تو پولیس نے کہا کہ وہ مقامی دباؤ کے باعث مجبور ہیں۔
بٹ خیلہ سے نکالے جانے کے بعد پیپسی سوات کے مینگورہ شہر گئی، مگر وہاں بھی اس کے خلاف سوشل میڈیا مہم چلائی گئی، جس کے بعد وہ مانسہرہ منتقل ہو گئی۔ ذرائع کے مطابق، پیپسی کے ایک قریبی دوست نے ذاتی جھگڑے کے باعث مقامی انفلوئنسرز کے ذریعے اس کے خلاف پروپیگنڈا کروایا۔ اسی شخص نے جعلی میڈیکل رپورٹس بھی تیار کروائیں تاکہ ظاہر کیا جا سکے کہ پیپسی صحت یاب ہو چکی ہے اور واپس آ سکتی ہے۔ ایک مقامی لیبارٹری کے مالک عدنان کے مطابق، 25 جنوری 2023 کو ٹیسٹ کرائے گئے تھے، لیکن انہیں یاد نہیں کہ خون کے نمونے خود پیپسی نے دیے تھے یا کسی اور نے۔
پیپسی کے خلاف یہ مہم کسی ایک شخص کی کارروائی نہیں بلکہ معاشرتی رویے کی عکاسی تھی۔ آرزو خان کے مطابق، آن لائن ہراسمنٹ اور نفرت انگیز پوسٹس اب خواجہ سراؤں کے لیے معمول بن چکی ہیں۔ جرائم پیشہ عناصر ان کی برہنہ ویڈیوز بنا کر بلیک میل کرتے ہیں، پیسے یا تعلقات کا تقاضا کرتے ہیں، اور انکار پر تشدد یا علاقہ بدری تک نوبت آتی ہے۔ کئی خواجہ سرا فیک سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی وجہ سے غیرت کے نام پر قتل بھی کیے گئے۔
معاشرتی نفرت، خوف اور ذہنی دباؤ نے پیپسی کی جوانی نگل لی۔ اس کے علاج اور تدفین کی ذمہ داری خواجہ سرا برادری نے اٹھائی، جبکہ اس کے اپنے خاندان کا کوئی فرد جنازے میں شریک نہ ہوا۔
خیبر پختونخوا ایچ آئی وی پروگرام کے سربراہ ڈاکٹر طارق حیات کے مطابق، صوبے کے 13 مراکز میں ایچ آئی وی کے ٹیسٹ اور ادویات فراہم کی جاتی ہیں، مریضوں کی معلومات خفیہ رکھی جاتی ہیں، اور خواجہ سراؤں کو خصوصی سہولیات دی جا رہی ہیں تاکہ وہ خوف کے بغیر علاج حاصل کر سکیں۔ تاہم وہ تسلیم کرتے ہیں کہ آگاہی مہمات اور فیلڈ پروگرام مطلوبہ سطح پر نہیں ہو رہے۔
نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس خیبر پختونخوا کے کوآرڈینیٹر محمد رضوان کے مطابق، صوبے میں خواجہ سراؤں کو دیگر صوبوں کے مقابلے میں زیادہ خطرات لاحق ہیں کیونکہ یہاں کی روایات سخت ہیں۔ ’’خیبر پختونخوا ٹرانس جینڈر اینڈ انٹرسیکس پرسنز ویلفیئر، ایمپاورمنٹ اینڈ پروٹیکشن آف رائٹس ایکٹ 2022‘‘ تاحال اسلامی نظریاتی کونسل کے اعتراضات کے باعث زیرِ التوا ہے۔ ایڈووکیٹ مہوش ثناء صدیقی کے مطابق، اگر کسی خواجہ سرا کی تصاویر یا ویڈیوز بغیر اجازت شیئر کی جائیں یا انہیں بلیک میل کیا جائے تو پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 (PECA) کے تحت تین سے پانچ سال قید اور بھاری جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے، لیکن زیادہ تر متاثرہ خواجہ سرا خوف کے باعث قانونی مدد نہیں لیتے۔
قمر نسیم کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا میں ایڈز کی روک تھام اور متاثرہ مریضوں کے تحفظ کے لیے مؤثر قانون سازی گزشتہ سات برسوں سے تعطل کا شکار ہے، جبکہ سندھ میں اسی نوعیت کے قانون کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔ اُن کے مطابق، لاعلمی، امتیازی سلوک، طبی سہولیات کی کمی اور غیر محفوظ انجکشن یا منشیات کے استعمال نے صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ پیپسی کی موت اس تلخ حقیقت کی علامت ہے کہ ایچ آئی وی سے زیادہ خطرناک وہ معاشرتی نفرت ہے جو مریض کو زندگی سے پہلے مار دیتی ہے۔
خیبر پختونخوا ایچ آئی وی، ہیپاٹائٹس اور تھیلیسیمیا پروگرام کے مطابق رواں سال جون تک صوبے میں 741 نئے ایچ آئی وی مریض رجسٹر ہوئے، جس سے مجموعی تعداد 8398 تک پہنچ گئی۔ ان میں 6448 مرد، 2119 خواتین، 197 خواجہ سرا اور 445 بچے شامل ہیں۔ ضم شدہ اضلاع میں 1371 مریض رجسٹرڈ ہیں، جن میں شمالی وزیرستان کے 354، خیبر کے 286، کرم کے 224 اور باجوڑ کے 218 کیس شامل ہیں۔ ماہرین کے مطابق غیر رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد ان اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے، کیونکہ بیشتر خوف اور بدنامی کے باعث ٹیسٹ یا علاج سے گریز کرتے ہیں۔
ایچ آئی وی سے متاثرہ خواجہ سراؤں کو سماجی تنہائی اور امتیازی سلوک کا سامنا سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ سماجی کارکن قمر نسیم کے مطابق، لاعلمی اور خوف کے باعث انہیں برادری سے نکال دیا جاتا ہے، ان کے ساتھ کھانا پینا ترک کر دیا جاتا ہے اور انہیں تقریبات میں شامل نہیں کیا جاتا، جس سے وہ مایوسی اور ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ منزل فاؤنڈیشن کے مطابق، 2015 سے 2025 تک خیبر پختونخوا میں 161 خواجہ سرا قتل ہو چکے ہیں جبکہ دو ہزار کے قریب مختلف حملوں میں زخمی ہوئے۔ رواں سال اب تک 10 قتل اور 40 سے زائد حملے رپورٹ ہوئے، تاہم بیشتر کیس بدنامی اور خوف کے باعث رپورٹ نہیں کیے جاتے۔



