سعیدہ نے حال ہی میں سوات یونیورسٹی کے شعبۂ صحافت سے بی ایس کی ڈگری مکمل کی ہے۔ وہ فری لانس میڈیا رپورٹنگ اور ڈیجیٹل مارکیٹنگ میں مہارت رکھتی ہیں اور ان سے اچھی کمائی بھی کرتی رہی ہیں۔ تاہم خاندان کی طرف سے پابندیوں کے باعث ان کا ڈیجیٹل پلیٹ فارمز سے تعلق محدود ہوگیا ہے۔ سعیدہ بتاتی ہیں کہ ان کے نام سے فیس بک، ٹک ٹاک، انسٹاگرام اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تھے، لیکن ان پر شیئر ہونے والے مواد پر مردوں کے تبصرے خاندان کے لیے پریشانی کا باعث بننے لگے۔ بھائی نے سختی سے سوشل میڈیا استعمال سے منع کر دیا۔ اب سعیدہ اپنی ضروریات کے لیے بھائی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس استعمال کرتی ہیں جبکہ اپنے تمام اکاؤنٹس ختم کر چکی ہیں۔
خواتین مختلف معاشرتی، تعلیمی، معاشی اور سماجی مقاصد کے لیے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز استعمال کر رہی ہیں۔ ان پلیٹ فارمز نے انہیں اظہارِ رائے، تعلیم، کاروبار اور سماجی روابط کے لیے ایک طاقتور ذریعہ فراہم کیا ہے۔ زیادہ تر خواتین فیس بک، یوٹیوب، انسٹاگرام، ٹک ٹاک اور ایکس جیسے پلیٹ فارمز پر اپنی آواز بلند کرنے، ذاتی تجربات شیئر کرنے اور سماجی مسائل پر شعور اجاگر کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔ ساتھ ہی بہت سی خواتین آن لائن کاروبار اور فری لانسنگ کے ذریعے مالی خودمختاری حاصل کر رہی ہیں، جیسے کپڑوں، ہنرمند مصنوعات، کھانوں یا بیوٹی سروسز کی آن لائن مارکیٹنگ۔ تعلیم کے میدان میں بھی خواتین آن لائن کورسز، ویبینارز اور تعلیمی ویڈیوز سے سیکھ کر اپنا تعلیمی سفر جاری رکھے ہوئے ہیں، خاص طور پر وہ خواتین جنہیں روایتی اداروں تک رسائی حاصل نہیں۔
سیاسی اور سماجی لحاظ سے بھی ڈیجیٹل پلیٹ فارمز خواتین کے لیے مزاحمت اور بیداری کا مؤثر ذریعہ بنے ہیں۔ یہاں وہ صنفی امتیاز، گھریلو تشدد، ہراسانی اور خواتین کے حقوق جیسے موضوعات پر کھل کر بات کرتی ہیں۔ ان پلیٹ فارمز نے انہیں اجتماعی شناخت اور یکجہتی فراہم کی ہے جس کے ذریعے وہ مقامی اور بین الاقوامی سطح پر اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہیں۔ تاہم آن لائن ہراسانی، نفرت انگیز تبصرے اور پرائیویسی کی خلاف ورزی جیسے خطرات ان کی ڈیجیٹل آزادی کو محدود کرتے ہیں۔
صائمہ محبوب کئی سالوں سے خیبرپختونخوا میں خواتین کے حقوق اور معاشی استحکام کے لیے سرگرم ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ خواتین سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی آواز پہنچا رہی ہیں، مگر جب خواتین کے حقوق سے متعلق مواد شیئر کیا جاتا ہے تو لوگ اسے سنجیدگی سے نہیں لیتے اور غیر ضروری تنقید کرتے ہیں۔ ان کے مطابق، اگرچہ سوشل میڈیا خواتین میں آگاہی اور معاشی مواقع پیدا کرنے کا ایک آسان ذریعہ ہے، لیکن پختونخوا کے روایت پسند معاشرے میں یہ کام اب بھی بہت مشکل ہے۔
خیبرپختونخوا انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ (کے پی آئی ٹی بورڈ) کی فوکل پرسن برائے خواتین اُمور، نازش کے مطابق، ’’ڈیجیٹل اسکلز‘‘ پروگرام کے تحت اب تک چار ہزار پانچ سو خواتین کو جدید ڈیجیٹل مہارتوں کی تربیت دی جا چکی ہے۔ ان پروگراموں میں گرافک ڈیزائن، سوشل میڈیا مارکیٹنگ، بگ ڈیٹا اینالٹکس، کلاؤڈ کمپیوٹنگ، ڈیجیٹل مواد کی تخلیق اور ای کامرس مینجمنٹ جیسے مضامین شامل ہیں۔ نازش کے بقول، مقصد یہ ہے کہ خواتین کو مارکیٹ کے تقاضوں سے ہم آہنگ مہارتیں دی جائیں تاکہ وہ روزگار حاصل کر سکیں اور ڈیجیٹل معیشت میں فعال کردار ادا کر سکیں۔
پشاور کی صحافی عاصمہ گل عام لوگوں، خصوصاً خواتین کے مسائل اجاگر کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ جب وہ سوشل میڈیا پر کسی سنجیدہ نوعیت کی خبر یا مواد شیئر کرتی ہیں تو بہت کم لوگوں کا ردِعمل آتا ہے، لیکن ذاتی تصاویر یا ویڈیوز پر تبصروں کی بھرمار ہوتی ہے۔ ان کے مطابق بعض اوقات سنجیدہ گفتگو کرنے والے لوگ بعد میں انباکس میں ذاتی تعلق بنانے کی کوشش کرتے ہیں، واٹس ایپ پر غیر ضروری پیغامات بھیجتے ہیں اور جواب نہ ملنے پر ناراضی یا عجیب رویہ اختیار کرتے ہیں۔ عاصمہ گل کے بقول، یہ رویہ خواتین صحافیوں کے لیے پیشہ ورانہ چیلنج اور ان کی آن لائن سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔
خواتین کے حقوق کی کارکن بشرہ اقبال حسین کہتی ہیں کہ زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح ڈیجیٹل میدان میں بھی خواتین کو مشکلات کا سامنا ہے۔ مالی وسائل کی کمی کے باعث وہ اکثر اسمارٹ فون یا انٹرنیٹ تک رسائی حاصل نہیں کر پاتیں، اور یہ مسئلہ صرف دیہی علاقوں تک محدود نہیں بلکہ شہروں میں بھی عام ہے۔ ان کے مطابق، ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے متعلق آگاہی اور سمجھ بوجھ کی کمی بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ تربیت نہ ہونے کے باعث کئی خواتین ہراسانی، غلط معلومات یا پرائیویسی کی خلاف ورزی کا شکار ہو جاتی ہیں۔ اگر خواتین کو مساوی رسائی اور ڈیجیٹل شعور فراہم کیا جائے تو وہ معاشی اور سماجی ترقی میں مؤثر کردار ادا کر سکتی ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے خواتین (یو این ویمن) خیبرپختونخوا کی سربراہ زینب قیصر خان کے مطابق، ادارہ صوبے اور ضم شدہ اضلاع میں خواتین کو ڈیجیٹل دنیا سے جوڑنے کے لیے اقدامات کر رہا ہے تاکہ وہ گھروں میں رہتے ہوئے کاروبار چلا سکیں، معلومات تک رسائی حاصل کر سکیں اور نئے معاشی مواقع تلاش کر سکیں۔ ان کے مطابق، اب تک آٹھ سو کاشتکاروں کو ڈیجیٹل خواندگی کی تربیت دی جا چکی ہے، جن میں چار سو خواتین شامل ہیں۔ انہیں آن لائن کاروبار، موسم کی معلومات اور زرعی مصنوعات کی مارکیٹنگ جیسے موضوعات پر تربیت دی گئی، جس سے خواتین کی معاشی شرکت میں اضافہ ہوا ہے۔
یو این ویمن کے دوسرے منصوبے کے تحت پندرہ ہزار خواتین کو ڈیجیٹل خواندگی کی تربیت دی جائے گی۔ یہ منصوبہ پشاور، مردان، سوات، آئی ایم سائنسز اور کے پی آئی ٹی بورڈ کے اشتراک سے شروع کیا جائے گا۔
بشرہ اقبال حسین کا کہنا ہے کہ خواتین کی ڈیجیٹل دنیا تک محدود رسائی کی ایک بڑی وجہ مردوں کا رویہ ہے۔ ان کے مطابق، بہت سے مرد خود انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں مگر یہ سمجھتے ہیں کہ خواتین بھی ویسا ہی مواد دیکھیں گی، یہی سوچ خواتین کی ڈیجیٹل آزادی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ زینب قیصر خان بھی متفق ہیں کہ خواتین کو تربیت کے ساتھ محفوظ ڈیجیٹل ماحول کی فراہمی ضروری ہے تاکہ وہ سائبر ہراسانی اور غلط معلومات سے بچ سکیں۔
پاکستان میں ڈیجیٹل میڈیا صارفین کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ملک میں تقریباً 190 ملین موبائل کنیکشنز اور 116 ملین انٹرنیٹ صارفین موجود ہیں۔ سوشل میڈیا صارفین کی تعداد 66.9 ملین ہے، جن میں 29.6 فیصد خواتین اور 70.4 فیصد مرد شامل ہیں۔ خواتین کے موبائل انٹرنیٹ کے استعمال میں 2023 کے 33 فیصد سے بڑھ کر 2024 میں 45 فیصد تک اضافہ ہوا ہے، جو ظاہر کرتا ہے کہ خواتین تیزی سے ڈیجیٹل دنیا کا حصہ بن رہی ہیں، تاہم صنفی فرق اب بھی نمایاں ہے۔
نازش کے مطابق، تربیت یافتہ خواتین میں سے 30 فیصد سے زائد اب فری لانسنگ، ریموٹ جابز یا آن لائن کاروبار کے ذریعے آمدنی حاصل کر رہی ہیں۔ کئی خواتین فائیور (Fiverr) اور اپ ورک (Upwork) جیسے پلیٹ فارمز پر کام کر رہی ہیں جبکہ کچھ نے مقامی کمپنیوں میں ڈیجیٹل مارکیٹنگ کے عہدے سنبھالے ہیں۔ اس سے خواتین میں مالی خودمختاری اور خود اعتمادی میں اضافہ ہوا ہے۔
عالمی بینک کے تعاون سے کے پی آئی ٹی بورڈ کے ایک منصوبے کے تحت صوبے کے مختلف علاقوں کے 600 نوجوانوں (جن میں لڑکے اور لڑکیاں شامل تھے) کو تین ماہ کی تربیت دی گئی اور ان کے لیے اسمارٹ فون بھی فراہم کیے گئے۔ تربیت مکمل کرنے والوں میں سے بہترین 50 افراد کے آئیڈیاز منتخب کیے گئے اور 8 نوجوانوں کو کاروبار کے آغاز کے لیے مالی معاونت دی گئی۔
مستقبل کے لیے نازش کا کہنا ہے کہ آئندہ مرحلے میں خیبرپختونخوا کے پسماندہ اضلاع میں تربیت کے دائرے کو مزید وسیع کیا جائے گا۔ نمایاں کارکردگی دکھانے والی خواتین کے لیے مصنوعی ذہانت، ڈیٹا سائنس، یو آئی/یو ایکس ڈیزائن اور کلاؤڈ آرکیٹیکچر جیسے جدید مضامین شامل کیے جائیں گے۔ تربیت یافتہ خواتین کو مقامی آئی ٹی کمپنیوں، اسٹارٹ اپس اور آن لائن ملازمتوں سے جوڑنے کے لیے مینٹورشپ اور کیریئر پلیسمنٹ پروگرام بھی شروع ہوں گے، جبکہ مائیکرو گرانٹس اور آگاہی مہمات کے ذریعے مزید خواتین کو ڈیجیٹل مہارتوں کے حصول اور معاشی خودمختاری کی ترغیب دی جائے گی۔
یہ تمام اقدامات خیبرپختونخوا میں ڈیجیٹل معیشت میں صنفی فرق کم کرنے اور پائیدار ترقی کو فروغ دینے میں ایک اہم سنگِ میل ثابت ہو سکتے ہیں۔