پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (ترمیمی) بل 2023 کچھ ترامیم کے ساتھ بدھ کو سینٹ اور نیشنل اسمبلی سے الگ الگ منظور کر لیا گیا ۔ یاد رہے کہ اس سے قبل وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے پیر کو پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) ترمیمی بل پر کچھ اینکرز کی طرف سے تنقید کے بعد واپس لے لیا تھا۔ ان اینکرز کا کہنا تھا کہ اس بل کی کچھ کی شقوں کے ذریعے میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ان اینکرز میں حامد میر، عامر متین اور محمد مالک شامل تھے۔
ان اعتراضات پر سینئر صحافی مطیع اللہ جان سے بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ بل پر بہت محنت کی گئی اور مس و ڈس انفارمیشن کے سدباب، عامل صحافیوں کی تنخواہوں کا تحفظ، پیمرا چیئرمین کی تقرری سمیت میڈیا کے حوالے سے دیگر اہم شقیں شامل تھیں۔ اور اس بل کی تیاری میں پی ایف یو جے سمیت تمام سٹیک ہولڈرزسے مشاورت کی گی تھی۔ تاہم اب اس بل کو کالا قانون کہا جارہا ہے۔
مطیع اللہ جان سے ہی گفتگو کرتے ہوئے سینئر اینکرز محمد مالک اور عامر متین نے وزیر اطلاعات کی جانب سے بل واپس لیے جانے پر ردعمل دیتے ہوے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ ہمیں بل میں ورکرز کے تحفظ کے حوالے سے کوئی اعتراض ہے۔ ۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وزیر اطلاعات کو کسی نے سمجھا کر بھیجا ہے جس وجہ سے وہ بات سننے کو تیار نہیں ہیں اور ذہن بنا کر آئی ہیں کہ یا تو بل پورا منظور ہو یا نا ہو۔ انہوں نے سوال کے جواب میں بتایا کہ مجھے علم نہیں کالا قانون کس نے کہا ہے کہ تاہم اگر کسی نے کہہ بھی دیا تو کیا سیاست دان ایک دوسرے کو کیا کیا کہتے ہیں اور کیا یہ جذبات میں آ کر کوئی بھی بل واپس لے لیتے ہیں۔
وفاقی وزیر کی جانب سے جب اس بل کو واپس لینے کا اعلان کیا گیا تو صحافیوں کی جانب سے اس پر شدید احتجاج دیکھنے میں آیا کہ پہلی بار صحافیوں کی تنغواہوں سے متعلق کوی قانون سازی عمل میں آرہی تھی ۔ جس کو اینکرز کی جانب سے روکنے کی کوشش کی گی ہے۔
اسی حوالے سے پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ کا کہنا ہے کہ اس بل میں میڈیا ہاوسز کو پابند کیا گیا ہے کہ کسی صحافی کی تنخواہ کی ادائیگی میں دو ماہ سے زیادہ تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔اور اس پر عمل درآمد نا کرنے والے ادارے کے اشتہارات بند کر دیئے جائیں گے۔ ‘صحافیوں کی تنخواہیں کئی کئی ماہ کی ادا نہیں کی جاتی۔ اس بل کی منظوری سے تھوڑی تنخواہوں پر کام کرنے والے صحافیوں کومالی تحفظ حاصل ہو گا۔ جن اینکرز کی طرف سے اعتراض کیا گیا ہے ان سے کہا تھاکہ بل کو پڑھیں اس میں صحافیوں کا حقوق کا تحظ بھی کیا گیا ہےـ‘
اس بل کی مشاورت کے لئے قائم جوائنٹ ایکشن کمیٹی میں میڈیا سے تعلق رکھنے والی پانچ تنظیموں کے نمائندے شامل تھے۔ افضل بٹ کا نے مزید کہنا ہے کہ پیمرا میں شکایات کےحوالے سے اختیارات چیئرمین سے لے کر کونسل آف کمپلین کو سونپنے کی اس بل میں شق شامل کی گی تھی جبکہ پی ایف یو جے کو بھی کونسل آف کمپلین میں نمائندگی دی گئی ہے جس سے صحافیوں کو فائدہ ہوگا۔
اس حوالے سے سابق چیرمین پیمرا اور سینئر صحافی ابصار عالم نے کہ پیمرا قوانین کا ترمیمی بل منظور ہونے کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ ‘اس بل سے جہاں صحافیوں کی ملازمت کو تحفظ حاصل ہوگا اور مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن پھیلانے والے قانون کی گرفت میں بھی آ سکیں گے۔ بعض اینکرز کی طرف سے بل کی مخالفت کرنا درست عمل نہیں ہے۔ غلط معلومات پھیلانا جرم ہے جس کے خلاف ترقی یافتہ ممالک میں سخت کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے جس سے معاشرے کو تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں اس پر کروڑوں کے جرمانے ہونے ہیں جبکہ ٹی وی چینلز بھی بند کرنے پڑتے ہیں، ایسے اینکرز اس وقت احتجاج کیوں نہیں کرتے جب غلط خبروں پربرطانیہ میں موجود ان کے ٹی وی چینلز کو بھاری جرمانے ہوتے اور چینلز بند بھی کر دیئے جاتے ہیں۔
۔ابصاعالم کا مزید کہنا ہے کہ صحافیوں کی تنخواہوں کو تحفظ حاصل ہونا ضروری ہے۔ ،مالی تحفظ حاصل ہونے کے بعد ہی صحافی آزادی سے کام کر سکتے ہیں
بل پیش کرنے کے موقع پر سینیٹ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ پہلے میڈیا ورکرز کے مسائل حل کرنے کے لیے کوئی پلیٹ فارم موجود نہیں تھا۔ یہ بل میڈیا ورکرز کے لیے مالی تحفظ کو یقینی بنائے گا کیونکہ حکومت ان میڈیا ہاؤسز کو اشتہارات نہیں دے گی جو صحافیوں کو لگاتار دو ماہ کے واجبات ادا نہیں کریں گے۔