آج کل کے زمانے میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال بہت عام ھو گیا ھے، سب ہی اس سے استفادہ حاصل کر رھے ھیں۔ خواجہ سراجنھیں ھمارے معاشرے میں بڑی حقارت سے دیکھا جاتا ھے اور ان کی پہلی جنگ اپنے گھر، اپنے خاندان سے ہی شروع ھوتی ھے۔ جدید ٹیکنالوجی اور سماجی رابطوں کی ویب سا ئیٹس کے زریعے اپنے خاندان ، لوگوں اور مداحوں سے رابطے میں رہتے ھیں۔
صوبیہ خان کا تعلق پشاور سے ھے اور وہ پاکستان کی پہلی خواجہ سرا ریڈیو میزبان ھیں جنہوں نے اس شعبے میں قدم رکھا۔
صوبیہ پشاور کے ایک مقامی ریڈیو چینل ٹی این این پر ہفتے میں ایک دن ” صوبیہ خان شو”کے نام سے دو گھنٹے کا ایک پروگرام کرتی ھیں۔ وہ اپنے پروگرام میں تعلیم،صحت، سیاست، خواجہ سرا کمیونٹی کے مسائل، بچوں اور خواتین کے دلچسپی والے موضوعات اور کھیلوں کے مقضوع پر اپنے مہمانوں سے بات کرتی ھیں۔ وہ ہر پروگرام میں موضوع کے حوالے سے مہمانوں کو دعوت دیتی ھیں اور ان سے بات چیت کرتی ھیں۔ رمضان کے مہینے میں وہ چھوٹے بچوں کو بلا کر نعتیں سنتی تھیں۔ اپنے پروگرام کے دوران وہ سماجی رابطے کی ویب سا ئٹ فیس بک پر بھی آن لا ئن رہتی ھیں اور لوگوں کے کمنٹس اور ان کی راےؑ پروگرام میں شامل کرتی ھیں۔
انہوں نے بتایا کہ “پشاور جیسی جگہ جھاں خواجہ سراوؑں کے لیے زیادہ دوستانہ ماحول نہیں، وہاں جب میں نے ریڈیو ٹی این این میں انٹرویو دیا اور نوکری حاصل کی۔ میں ریڈیو میزبان کی حیثیت سے ہفتے میں ایک دن پرگرام کرتی ھوں۔ اپنے پروگرام میں میں ہنر مند خواتین کو دعوت دیتی ھوں اور پھر فیس بک لائیو کے زریعے گھر بیٹھی خواتین کو دستکاری اور دوسرے ہنر سکھاتی ھوں”۔
اپنی تعلیم اور کیؑریر کے بارے میں بات کرتے ھوےؑ انہوں نے بتایا کہ وہ اس وقت علامہ اقبال اوپن یوینورسٹی سے بی اے کررھی ھیں اور ساتھ ساتھ وہ ریڈیو میں بھی کام کرتی ھیں۔ کیونکہ یہ ایک ایسا میڈیم ھے جس کے زریعے میں پشاور میں بیٹھ کر پوری دنیا کے لوگوں کے ساتھ رابطے ھوتاھے تو لوگ مجھے میسجز کرکے بتاتے ھیں کہ ھم کیا سیکھنا چاہتے ھیں اور کن مہمانوں سے ملنا چاہتے ھیں۔
مستقبل میں ان کا ارادہ اینکر پرسن بننے کا ھے اور اس کے لیے وہ صحافت کی دگڑی لینےکاارادہ رکھتی ھیں۔
اپنے پروگرام میں میں ہنر مند خواتین کو دعوت دیتی ھوں اور پھر فیس بک لائیو کے زریعے گھر بیٹھی خواتین کو دستکاری اور دوسرے ہنر سکھاتی ھوں
صوبیہ خان
صوبیہ خان کے دو بھایؑ اور دو بہنیں ھیں۔اپنے ماضی کے بارے میں بتاتے ھوےؑ انہوں نے کہا کہ دسویں جماعت تک میں نے لڑکوں کے سکول سے تعلیم حاصل کی اور لڑکوں والے کپڑے پہنتی تھی، وہ لباس مجھے اچھا نہیں لگتا تھا لیکن میری والدہ کہتی تھیں کہ، “گھر کے اندر بیشک لڑکیوں والے کپڑے پہنا کرو لیکن باہر جاتے وقت لڑکے کے روپ میں جایا کرو اور پھر ایک وقت ایسا آےؑ گا جب تم بڑے ھو جاوؑگے تو اپنی مرضی سے جو چاھو وہی پہننا اور تمھیں مکمل ٓزادی ھو گی ۔
صوبیہ خان کہتی ھیں کہ “اس معاشرے میں رہنے کے لیے اپنی جگہ خود بنانی پڑتی ھے، اور میں نے یہ جگہ والدین کے بھروسے اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے حاصل کی “۔
صوبیہ خان کہتی ھیں کہ “اس معاشرے میں رہنے کے لیے اپنی جگہ خود بنانی پڑتی ھے، اور میں نے یہ جگہ والدین کے بھروسے اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے حاصل کی۔ میں پچھلے چار سالوں سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک کا استعمال کر رہی ھوں ۔ٹیکنالوجی نے مجھے حوصلہ دیا اور میں لوگوں کے ساتھ اپنے خیالات شیؑر کر سکی۔ پہلے لوگوں کو پتہ نھیں تھا کہ صوبیہ نامی لڑکی بھی ھے لیکن اسی جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے لوگوں کو میرے بارے میں معلوم ھوا اور مجھے پزیرائی ملی ” ۔
اس معاشرے میں رہنے کے لیے اپنی جگہ خود بنانی پڑتی ھے، اور میں نے یہ جگہ والدین کے بھروسے اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے حاصل کی
صوبیہ خان
انہوں نے فیس بک کے افادیت پہ بات کرتے ھوےؑ بتایا کہ ”کچھ سال پہلے کچھ لوگوں نے ایک خواجہ سرا کے بال کاٹ دیے تھے، میں نے اس واقعے کو اپنے فیس بک کے پیج پر شئیر کیا تو میرے علاقے کے ایس ایچ او نے مجھ سے رابطہ کیا اور اس معاملے پر ایکشن لےکر اس کی چھان بین شروع کی۔ فیس بک ایک بہت پاور فل میڈیم ھے جس سے ھم اپنے مسائل اور خیالات لوگوں تک پہنچا سکتے ھیں۔”
خواجہ سراوؑں کے فلاح و بہبود پہ کام کرنے والی ایک تنطیم ٹرانس ایکشن پاکستان کے سربراہ قمر نسیم نے بتایا کہ آج کل کے خواجہ سرا کمینوٹی میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کا رحجان بڑھ رہا ۔ جس کی وجہ سے ہر تیسرا خواجہ سرا فیس بک اور ٹو ئٹر پر ھے اور لوگ اسے جانتے ھیں۔ کچھ خواجہ سرا سماجی رابطوں کی ویب سا ئیٹس کو اپنے ناچنے گانے کے پروگراموں کے لیے گاہگ ڈھونڈنے کے بھی استعمال کرتے ھیں۔
مردان سے تعلق رکھنے والی ایک خواجہ سرا نے اپنا نام اور شناخت نا بتانے کی شرط پر بتایا کہ”ھم بھی باقی لوگوں کی طرح انسان ھیں لیکن معاشرا ھمیں وہ عزت اور مقام نہیں دیتا جو کہ ایک لڑکے یا لڑکی کو حاصل ھے۔ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے ھمیں بھی لوگوں سے بات چیت کرنے کا موقع مل جاتا ھے اور اس سے ھمارا روزگار بھی چلتا رہتا ھے۔ ھم لوگوں تک اپنی آواز اور خیالات انہی سماجی رابطوں کی ویب سایؑٹس کے زریعے بھیجتے ھیں ۔
سینر صحافی فرزانہ علی سے پوچھا گیا کہ”جب کبھی خواجہ سراوں کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آتا ھے تو کیا ھمارے مقامی نیوز چینلز اس کمیونٹی کو وقت اور اہمیت دیتے ھیں ؟ تو انہوں نے بتایا کہ “پہلے جب کسی خواجہ سرا کے ساتھ کوئی واقعہ پیش آتا تو ان کی آواز دب جاتی تھی اور لوگوں کو ان کے مسائل کا پتہ نہیں چلتا تھا یہ میڈیا ہی ھے جو پچھلے کچھ سالوں سے خواجہ سراؤں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کو منظرعام پہ لا رہا ھے ۔
جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے ھمیں بھی لوگوں سے بات چیت کرنے کا موقع مل جاتا ھے اور اس سے ھمارا روزگار بھی چلتا رہتا ھے
مردان سے تعلق رکھنے والی ایک خواجہ سرا
ماضی میں جب ان پہ تشدد ھوتا تھا تو اس کا کوئی ثبوت نا ھونے کی وجہ سے کیس فائل نہیں ھوتا تھا لیکن اب چونکہ خواجہ سرا کمیونٹی جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتی ھے تو وہ اپنے ساتھی دوستوں کے ساتھ ھونے والی کسی بھی نا انصافی یا تشدد کو ریکارڈ کر لیتے ھیں یا فیس بک پہ جا کر اسی وقت تمام لوگوں تک بات پہنچا دیتےھیں اور یہی کلپ میڈیا پہ چلنے کے ساتھ ساتھ مقدمہ درج کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوتے ھیں۔
میڈیا نے ان کو آواز دی، حکومتیں ان آوازوں کو سننے کے بعد الرٹ ھو گئی ہیں بلکہ خود ان خواجہ سراؤں کو اپنے ھونے کا احساس ھوا کہ ھمارے بھی کچھ بنیادی حقوق ھیں۔ بحثیت ایک نیوز چینل کی سربراہ میں نے اپنے رپورٹرز کو کبھی بھی ان کے مسائل کو کوریج دینے سے نہیں روکا بلکہ ان کے مسائل کو عوام تک لانے کی کوشش کی۔
پہلے ان پر تشدد ھوتا تھا یا کچھ ایسے واقعات ھوتے تھے تو اس کی فوٹیج ھم تک نہیں پہنچ پاتی تھی جس کی وجہ سے ٹی وی پر ایک ٹکر آ جاتا اور اخبار میں ایک خبر،جو کہ اتنی موثر نہیں ھوتی تھی۔ لیکن اب وہ اپنے ساتھ ھونے والے ہر ظلم کو جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے ھمارے تک بھی پہنچآتے ھیں اور اپنی آواز کو پوری دنیا میں سوشل میڈیا کے ذریعے شیئر کر دیتے ہیں۔”
کے الیکشن میں صوبہ پختنونخواہ سے الیکشن لڑنے والی واحد خواجہ سرا ماریہ خان کا تعلق مانسہرہ سے ھے۔وہ گزشتہ سات سالوں سے سماجی رابطوں کی ویب سایؑٹس فیس بک اور انسٹاگرام کا استعمال بھرپور طریقے سے کرتی ھیں۔ اپنے ماضی کے بارے میں بات کرتے ھوےؑ انہوں نے بتایا کہ “چودہ سال کی عمر میں میری اپنی ماں نے مجھے گھر سے نکال دیا تھا کیونکہ میرے بھایؑوں کو لوگ طعنے دیتے تھے اور میرے بھائی گھر آکر میری ماں سے جھگڑتے تھے تو میری امی نے مجھے کچھ پیسے دے کر گھر سے نکال دیا۔ میں کئی دنوں تک کبھی روڈ پر اور کبھی پارکوں میں سو جایا کرتی تھی۔ ان دنوں کچھ لوگوں نے میرے ساتھ زیادتی کی لیکن میں بے بس تھی کیونکہ نا رہنے کو چھت تھی اور نا کھانے کو روٹی۔ پھر مجھے ایک نر خواجہ سرا (جیسے مورت بھی کہتے ھیں) ملا جس نے مجھے مانسہرہ میں اس جگہ کے بارے میں بتایا میں کسی طریقے سے یہاں پہنچ گیؑ اور یہاں آکر رہنے لگی۔ یہاں نا تو کویؑ مجھے کھسرا کہہ کر بلاتا اور نا ہی کوئی لعن طعن کرتا تھا بلکہ یہاں سب میری طرح کے لوگ رہتے تھے جو مجھے عزت دیتے تھے۔ تب سے میں یہاں رہتی ھوں۔
میڈیا نے ان کو آواز دی، حکومتیں ان آوازوں کو سننے کے بعد الرٹ ھو گئی ہیں بلکہ خود ان خواجہ سراؤں کو اپنے ھونے کا احساس ھوا کہ ھمارے بھی کچھ بنیادی حقوق ھیں
خواجہ سرا مرد یا عورت اپنا گھر ہمیشہ بہن اور بھاؑئیوں کی وجہ سے چھوڑنے پر مجبور ھوتے ھیں کیونکہ وہ انہیں طعنے دیتے ھیں کہ ” جا اوےؑ کھسرے” جب گھر والے ہی ایسا کہنے لگتے ھیں تو پھر گھر بھی دوزخ بن جاتا ۔
مجھ پر چونکہ بہت تکلیفیں آئیں میں نے سڑکوں پہ بھی راتیں گزاری ھیں تو آج میں دس سے پچاس خواجہ سراوؑں کی کفالت کرتی ھوں کچھ میرے ساتھ میرے گھر میں ہی رہتے ھیں اور میں نے ان کو مفت رہنے کی جگہ دی ھوئی ھے اور ان کو تین وقت کا کھانا بھی دیا جاتا ھے۔
جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ “میں فیس بک کا استعمال شروع میں اپنی کمیونٹی کی آواز دنیا تک پہنچانے کے لیے استعمال کرتی تھی لیکن جب میں پچھلے سال الیکشن کے لیے کھڑی ھوئی تو مجھے اندازاہ ھوا کہ فیس بک ایک پاور فل پلیٹ فارم ھے جس کے زریعے میں اپنی آواز نا صرف پاکستان بلکہ باہر رہنے والے لوگوں تک بھی پہنچا سکتی ھوں ۔ مجھے میرے الیکشن کے دنوں میں فیس بک کے ذ ریعےسے بھی کافی ووٹرز ملے جن کا تعلق مانسہرہ سے تھا۔ انہوں نے میری آئی ڈی دیکھی اور پھر مجھے ووٹ بھی دیا۔”
الیکشن کے دنوں میں میں اپنی کمپین کی تصاویر انسٹاگرام پہ لگاتی تھی اور لوگوں کی طرف سے ہمیشہ ہی مثبت خیالات آےؑ۔ لوگ میری حوصلہ افزایؑ کرتے ھیں جب میں کبھی اپنی آئی ڈی پر اپنے لوگوں کے مسائل شیؑر کرتی ھوں ، کبھی کبھی ایسا بھی ھوتا ھے کہ لوگ میسنجر پر دھمکیاں بھی دے دیتے ھیں لیکن پانچوں انگلیاں برابر نہیں ھوتی اور میں اکثردھمکیاں نظر انداز کر دیتی ھوں۔